بیٹی کے ریپ کے مقدمے میں نامزد شخص کو عدالت کا ضمانت دینے سے انکار

اپ ڈیٹ 06 اگست 2022
پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی— فائل فوٹو: ڈان
پشاور ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست مسترد کردی— فائل فوٹو: ڈان

پشاور ہائی کورٹ نے ضلع سوات میں اپنی نوعمر بیٹی کا بار بار ریپ کرنے والے شخص کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک رکنی بینچ کے جسٹس محمد اعجاز خان نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی درخواست ضمانت میرٹ سے عاری ہے اس لیے اسے خارج کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: بیٹی کے ساتھ ریپ کا جرم چھپانے کیلئے ملزم نے اسے اور اہلیہ کو قتل کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار پر اس کی اپنی بیٹی نے ریپ کا الزام لگایا تھا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ دستیاب ریکارڈ کی عارضی جانچ کے بعد درخواست گزار اس جرم کے ارتکاب سے منسلک تھا جو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497 کی ممنوعہ شق میں بھی آتا ہے، اس لیے وہ ضمانت کی رعایت کا حقدار نہیں۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ شکایت کنندہ کے الزام کو طبی قانونی شواہد سے تقویت ملتی ہے اور یہ حقیقت کہ لڑکی نے اپنے حقیقی والد پر الزام لگایا تھا اس میں جھوٹے مضمرات کے تمام امکانات اس کے بعد خارج ہو گئے ہیں لہذا بادی النظر میں یہ چیزیں درخواست گزار کو جرم کے ارتکاب سے منسلک کرتی ہیں۔

تاہم بینچ نے ٹرائل کورٹ کو تین ماہ کے اندر مقدمے کی کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

درخواست کے ساتھ ملزم نے شکایت کنندہ کا حلف نامہ جمع کرایا تھا جس میں یہ اصرار کیا تھا کہ اسے درخواست گزار کو ضمانت دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: بیٹی کا ریپ کرنے کے الزام میں باپ گرفتار

تاہم بینچ نے مشاہدہ کیا کہ قانون کی وہ دفعہ جس کے لیے درخواست گزار پر الزام عائد کیا گیا تھا وہ ناقابل مصالحت ہے اور مشتبہ افراد کو ضمانت دینے کے حوالے سے ایسے جرائم میں سمجھوتہ پر غور نہیں کیا جا سکتا۔

ریپ کی ایف آئی آر پولیس نے 17 جون 2022 کو لڑکی کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 اور 506 کے تحت درج کی تھی۔

شکایت کنندہ عمر تقریباً 16 سال ہے جس نے الزام لگایا ہے کہ درخواست گزار گزشتہ تین ماہ سے اس کا ریپ کر رہا تھا اور اسے دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے اس کی حرکتوں کے بارے میں کسی کو بتایا تو اسے مار دیا جائے گا۔

اس نے مزید کہا کہ اس نے اپنے والد سے بار بار درخواست کی تھی کہ وہ اسے زیادتی کا نشانہ نہ بنائیں لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کا موکل بے قصور ہے اور اسے جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پشاور: 'اتوار' کو بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا ملزم گرفتار

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو جرم کے ارتکاب سے منسلک کرنے کا ریکارڈ پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔

سوات کے ایڈیشنل سیشن جج نے 21 جولائی کو اس مقدمے میں ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ملزم کی ’غلط شناخت‘ کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہ ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی کا حقیقی باپ ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا تھا کہ اگرچہ لڑکی ملزم کے خلاف مقدمہ نہیں چلانا چاہتی تھی، پھر بھی یہ باپ بیٹی کے مقدس رشتے سے متعلق معاملہ ہے جہاں ہر باپ اپنی بیٹی کا فطری سرپرست اور محافظ ہوتا ہے۔

جج نے مزید کہا کہ اس طرح کے گھناؤنے جرم میں کسی بھی باپ یا خاندان کے کسی دوسرے مقدس رشتے کا ملوث ہونا قانون اور اسلام کے خلاف ہے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے، اس لیے ملزم کو ضمانت دینے کے حوالے سے شکایت کنندہ کے حلف نامے کو قابل غور نہیں سمجھا جا سکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں