اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


فضائی عملے اور زمینی عملے میں ایک غیر اعلانیہ سرد جنگ ہمیشہ سے چلتی آئی ہے۔ ہمارے یہاں کہ علاوہ بھی دوسرے ممالک کا فضائی اور زمینی عملہ آپس میں پولا پولا نبرد آزما رہتا ہے۔

ایسا صرف چند لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو اپنے فرائض مکمل طور پر ادا نہیں کرتے اور ڈنڈیاں مارنے کے نہ صرف شوقین ہوتے ہیں بلکہ اس کار خیر میں ید طولی بھی رکھتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں تو لوگ اپنے حقوق کے بارے میں جانتے ہیں لیکن ہماری طرف اور گلف ممالک میں صورتحال مختلف ہے۔ یہاں انگلیوں کو ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے جبکہ دل تو کرتا ہے کہ اگلے بندے کو ہی ٹیڑھا کردیا جائے۔

ایک مرتبہ کسی گلف پرواز پر زمینی عملے کا ایک آدمی وہیل چیئر پر ایک صاحب کو لے کر آیا۔ جہاز میں سب سے پہلے وہیل چیئر پر آنے والے مسافروں کو لایا جاتا ہے اور اس کے بعد باقی مسافر آتے ہیں۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ بورڈنگ جلد از جلد ہوسکے اور پرواز وقت پر روانہ ہو۔ اگر جسمانی عارضے میں مبتلا افراد بھی سب کے ساتھ سوار ہونے کے لیے جہاز میں آئیں گے تو مشکل ہوگی اور مسافروں کو نشستوں تک پہنچنے میں دیر لگے گی۔

دوسرا یہ کہ سب سے پہلے آخری نشستوں کے حامل مسافروں کو جہاز میں سوار ہونے کے لیے کہا جاتا ہے اور اس کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بھی۔ لیکن کچھ حاملہ مسافر (نشستوں کے) ایسے ہوتے ہیں جو کسی اعلان کی پرواہ کیے بغیر جہاز میں سوار ہونے کو لپکتے ہیں اور وہ اپنے اس قبل از وقت اخراج سے (ہوائی اڈے کے لاؤنج سے) جہاز کی بورڈنگ میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ظاہر ہے قبل از وقت جو کام ہوگا اس میں پیچیدگیاں تو ہوں گی۔

خیر بات ہو رہی تھی اس آدمی کی جو وہیل چیئر پر ان صاحب کو لے کر آیا اور ان کے ساتھ جو بیگ تھا وہ قریب ہی ایک نشست پر رکھ گیا کہ آکر اٹھا لے گا۔ واپس آیا تو میں نے بیگ کی طرف اشارہ کیا تو معذرت کرکے ایک اور (وہیل چیئر) مسافر کو لینے چلا گیا۔ ایسا 2، 3 مرتبہ ہوا تو میں اس کی یہ ’چست کاریاں‘ خوب سمجھ گیا۔ میرے اندازے کے مطابق اس کا تعلق جنوبی ہند کے کسی علاقے سے تھا کیونکہ جہاز کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی وہ اندھیرے میں ایسے غائب ہوجاتا تھا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

اب مسافر آنے والے تھے اور بیگ وہیں پڑا تھا۔ خیر میں نے بیگ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا تو میری کمر کے آخری مہرے سے آواز آئی کہ ’اگر اس بیگ کا وزن مروجہ قوانین کے تحت نہ ہوا تو کمپنی ذمہ دار نہ ہوگی‘۔ میں فوراً رک گیا۔ ساتھ ہی میں نے ہاتھ کے اشارے سے تمام مسافروں کو بھی جہاز کے اندر آنے سے روک دیا جس سے مجھے یہ ادراک ہوا کہ ٹریفک کانسٹیبل کے ہاتھ میں کتنی طاقت ہوتی ہے۔

خیر وہ میرا رقیب رو ’سیاہ‘ آخری وہیل چیئر والے مسافر کو بٹھا کر واپس آ رہا تھا۔ میرے پاس آیا تو میں نے اسے روکا اور بیگ کی طرف اشارہ کرکے مسکراتے ہوئے کہا ’بہت حلالی ہو بیٹا‘۔ چونکہ میں نے یہ الفاظ دانت پیستے ہوئے ادا کیے تھے لہٰذا وہ یہ سمجھا کہ میں بیگ مسافر تک پہنچانے کی بات کر رہا ہوں۔ چنانچہ اس نے نفی میں اپنا سر ہلا کر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے یس سر کہا اور بیگ اٹھا کر لے گیا۔ اس کے بعد میں نے بورڈنگ کا سگنل کھولا اور مسافروں نے جہاز میں آنا شروع کردیا۔

تربیت کے دوران یہ سکھایا جاتا ہے کہ ہر وقت مسکرانا ہے کیونکہ انگریزی میں کسی نے کہا بھی ہے کہ ایک مسکراہٹ بہت دُور تلک جاتی ہے۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ جس نے یہ کہا ہے اس کی ازدواجی زندگی ایک مسکراہٹ کی وجہ سے ہی خراب ہوئی ہوگی جو اتنی دُور چلی گئی کہ طلاق وغیرہ پر منتج ہوگئی ہوگی۔

یہ طے ہوگیا کہ جہاز میں کوئی مسافر آپ کو دیکھے تو آپ مسکرا کر اس کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ عادت اتنی پختہ ہوگئی کہ جہاز کی راہداری میں چلتے ہوئے بھی اگر مسافروں کی طرف دیکھنا ہے تو چہرے پر مسکراہٹ ہوتی۔ غیر ارادی طور پر یہ عادت روزمرہ زندگی میں بھی در آئی۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ لوگ مجھے ’سائیں‘ سمجھنے لگے کیونکہ جب بازار، کسی دکان یا راہ چلتے آپ کسی کو دیکھ کر مسکرانے لگیں تو وہ یہی سمجھے گا۔ فائدہ بھی ہوا لیکن اس کا ذکر یہاں ضروری نہیں کیونکہ یہ تحریر گھر والے بھی پڑھیں گے۔

لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے یہاں لوگ نہیں ہنستے۔ دکھ سکھ تو زندگی کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن لوگوں میں عمومی طور پر تاثرات کی انتہائی کمی ہے۔ میں تو کہوں گا کہ آئیوڈین ملے تاثرات کا کوئی سفوف ہو تو لوگوں کو پلایا جائے۔ ہنسنا مسکرانا تو دُور کی بات ہے، تکلیف کا تاثر بھی تب چہرے پر آتا ہے کہ جب تک دائیں ہاتھ کی پشت سے کسی کو اس کے کان کے نیچے ایک تحفہ نہ پیش کیا جائے۔ ہمارے لوگوں میں (Lack of Expression) اتنا ہے کہ باقاعدہ ڈرپیں لگوانے کی ضرورت ہے۔

عملے کا چہرہ بھی اگر تاثرات سے عاری اور سپاٹ ہو تو پھر کام نہیں چلے گا۔ اگر کسی نے سیب کا جوس مانگ لیا ہے اور وہ جہاز پر نہیں ہے تو ایک دم سپاٹ چہرے سے انکار کرنا تو بُرا لگتا ہے نا۔ لہٰذا مسکرا کر معذرت کرنا بہتر رہتا ہے۔ عملے کی مسکراہٹ سے سیب کا جوس تو نہیں نکلتا لیکن تھوڑا خلوص ضرور نکل آتا ہے اور آج کل کے زمانے میں بس یہی بچت ہے۔

متبادل بھی اسی وقت آفر کردیا جاتا ہے کہ اگر جوس ہی پینا ہے تو سیب کی بجائے آم کا پی لیں۔ حیرت انگیز طور پر ایک مسافر حضرت ایسے ملے جو ٹھنڈے جوس کے متبادل کے طور پر گرم چائے کے طلبگار ہوئے۔ مجھے اس ’موڈ سوئینگ‘ کی وجہ تو معلوم نہ ہوسکی تاہم چائے بنانے کا بندوست کرنا شروع کیا۔ چائے بنانے سے پہلے چینی کا تو پوچھا جاتا ہی ہے۔ بنانے لگا تو چینی کا پوچھنے کے لیے ان صاحب سے مخاطب ہوا

میں: سر شوگر

وہ: نہیں نہیں مجھے شوگر نہیں ہے

میں: سر میرا مطلب شوگر کتنی آپ کی

وہ: یار شوگر ہے ہی نہیں تو چیک بھی نہیں کی

آخر ان کو کہا کہ سر چائے میں کتنی شوگر، تو پھر کہنے لگے کہ ایک چمچ۔

ویسے عملہ جو چائے یا کافی اپنے لیے بناتا ہے وہ ایویں مشہور ہے مسافروں میں۔ آج اس راز سے پردہ اٹھا دوں کہ دنیا بھر کی فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے فضائی میزبان کوئی ایسی گیدڑ، شیر، سانپ یا لگڑ بگڑ سینگی اس چائے میں نہیں ڈالتے جو وہ اپنے لیے بناتے ہیں۔ لیکن نہیں، مسافر اکثر کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ عملے والی خاص چائے اگر مل جائے تو۔۔۔ اور اس کے بعد خوشامدی مسکراہٹ۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کپ یا وہ گلاس جس میں چائے بنتی ہے وہ چھوٹا ہوتا ہے اور پتی اور سوکھا دودھ جس تناسب سے ڈالا جاتا ہے وہ چائے کو گاڑھا کر دیتا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے پھر بھی آپ نے عملے کی خاص چائے کی ہی فرمائش کرنی ہے اگلے سفر میں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں