آزادی مارچ کے شرکا سے ’بدسلوکی کے الزام‘ میں 25 ایس ایچ اوز معطل

12 اگست 2022
ڈی آئی جی آپریشن افضال احمد کوثر نے دعویٰ کیا کہ پرانے ایس ایچ اوز کی برطرفی اور نئی تعیناتیوں کی وجہ انتظامی اقدامات ہیں—فائل فوٹو: شکیل قرار
ڈی آئی جی آپریشن افضال احمد کوثر نے دعویٰ کیا کہ پرانے ایس ایچ اوز کی برطرفی اور نئی تعیناتیوں کی وجہ انتظامی اقدامات ہیں—فائل فوٹو: شکیل قرار

لاہور پولیس نے رواں سال 25 مئی کو آزادی مارچ کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنوں پر تشدد کے الزام میں 25 اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) کو معطل کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کے خلاف کارروائی صرف سول اور پولیس بیوروکریٹس تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ دائرہ مسلم لیگ (ن) کے بعض سیاستدانوں تک بھی پھیلے گا۔

ذرائع نے کہا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی پنجاب حکومت سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا تارڑ کو گرفتار کرکے مسلم لیگ (ن) کو سرپرائز دے سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد قابل مذمت، ناقابل برداشت ہے، عمران خان

وزیر داخلہ پنجاب ریٹائرڈ کرنل محمد ہاشم نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’لاہور پولیس نے 25 ایس ایچ اوز کو ملازمت سے معطل کر کے ان کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے میرے چیف منسٹر پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کا حکم ملا ہے کہ جس نے بھی مئی کے مہینے میں آئین اور قانون شکنی کی ہے اس کو نہیں چھوڑا جائے گا‘۔

ڈی آئی جی آپریشن افضال احمد کوثر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے انٹرویوز لیے اور ایس ایچ اوز کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جبکہ انہوں نے شہر کے مختلف تھانوں میں 32 نئے ایس ایچ اوز بھی تعینات کر دیے۔

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ پرانے ایس ایچ اوز کی برطرفی اور نئے ایس ایچ اوز کی تعیناتی کی وجہ انتظامی اقدامات ہیں، اس حوالے سے ان کا تبصرہ جاننے کی بار بار کوشش کی گئی لیکن رابطہ ممکن نہ ہوا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ ہنگامہ آرائی کیس: فواد چوہدری اور ان کے بھائی کی حفاظتی ضمانت منظور

واضح رہے کہ لاہور کے ایس ایچ اوز نے اسلام آباد میں پارٹی کے آزادی مارچ سے قبل اور اس کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اس سے قبل یکم اگست کو بھی پنجاب حکومت نے آزادی مارچ کے شرکا پر تشدد میں ملوث ہونے پر 2 اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو ہٹا دیا تھا۔

حکومت نے ڈی آئی جی آپریشنز ریٹائرڈ کیپٹن سہیل چوہدری کو معطل کرتے ہوئے انہیں سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی، اے آئی جی سپیشل برانچ عثمان انور کو بھی ہٹا کر ان کی خدمات مرکز کے سپرد کر دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ کے بعد دائر مقدمات ختم کروانے کیلئے پی ٹی آئی کی کمیٹی تشکیل

اس سے قبل پنجاب حکومت نے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے دوران آزادی مارچ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لے لیے تھے اور شرکا پر تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے شفقت محمود کی سربراہی میں انسدادِ تشدد کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کمیٹی نے اجلاس میں تمام کیسز کا جائزہ لیا اور 25 مئی کو تعینات پولیس اہلکاروں اور عہدیداروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

کمیٹی نے اپنے فرائض سے ہٹ کر کام کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تھا اور پنجاب حکومت سے پارٹی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے درج مقدمات واپس لینے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری کے احکامات بھی واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں