ایران چند اہم مطالبات سے دستبردار، جوہری پروگرام کی بحالی کے امکانات روشن

اپ ڈیٹ 23 اگست 2022
ین الاقوامی معائنہ کار جواہری پروگرام کی تحقیقات بند کریں،ایران کا مطالبہ—فوٹو:رائٹرز
ین الاقوامی معائنہ کار جواہری پروگرام کی تحقیقات بند کریں،ایران کا مطالبہ—فوٹو:رائٹرز

سینئر امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے کچھ اہم مطالبات سے دستبردار ہو گیا ہے جس کی بدولت معاہدہ جلد طے پانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق امریکا کا مقصد یورپی یونین کی طرف سے تجویز کردہ معاہدے کے مسودے کا جلد جواب دینا ہے تاکہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کیا جا سکے جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک کر دیا تھا البتہ موجودہ صدر جو بائیڈن اس کی بحال کے لیے کوشاں ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران نے امریکا پر جوہری معاہدے کی بحالی میں تاخیر کا الزام لگایا دیا

ایک سینئر امریکی عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگرچہ تہران کہتا رہا ہے کہ واشنگٹن نے معاہدے میں کچھ رعایتیں دی ہیں لیکن ایران کچھ اہم مطالبات سے پیچھے ہٹ گیا ہے، وہ گزشتہ ہفتے آئے تھے اور معاہدے کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ کو دور کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران اب ممکنہ معاہدے کی جانب پیش قدمی کررہا ہے اور وہ ایسی شرائط پر رضامند ہو گئے ہیں جو صدر بائیڈن کو بھی منظور ہوں گی، آج اگر ہم معاہدے کے قریب آئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران نے پیش قدمی کی ہے، انہوں نے اس مسئلے پرسر تسلیم خم کیا جس پر وہ ابتدا سے ڈٹے ہوئے تھے۔

ایران کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

عہدیدار کاکہنا تھا کہ ایران اپنے اس مطالبے پر مصر تھا کہ امریکا پاسداران انقلاب کو دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے نکالے لیکن ہم نے کہا کہ یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے، وہ مسلسل اصرار کرتے رہے لیکن ایک ماہ قبل ان کے رویے میں نرمی آئی اور انہوں نے کہا کہ آپ آپ دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں پاسداران انقلاب سے منسلک متعدد کمپنیوں سے یہ پابندی ہٹائی جائے لیکن ہم نے کہا کہ ہم ایسا بھی نہیں کریں گے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم ایک مضبوط اورپائیدار معاہدے کے خاطر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن امریکا کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ کوئی معاہدہ چاہتا ہے یا اپنے یک طرفہ مطالبات پر ہی مصر رہنا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جوہری معاہدہ: ایران کا مطالبات تسلیم کرنے پریورپی یونین کی تجاویز قبول کرنے کا عندیہ

یورینیم کی افزودگی کے پروگرام میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی تحقیقات میں پیش رفت پر ایران نے تشویش کا اظہار کیا۔

ایران اس بات کی ضمانت بھی چاہتا تھا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی یورینیم کے غیر واضح ثبوتوں پر مشتمل تحقیقات بند کر دے گی۔

امریکی عہدیدار نے مزید بتایا ک ایران اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی ان سب کو بند کر دے گی، ہم نے کہا کہ ہم اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے جون میں بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں ایران پر تین غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کے آثار کی موجودگی کی وضاحت کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان خلا باقی ہے اور اگر ممکن ہو تو حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ’تھوڑا زیادہ وقت لگ سکتا ہے"۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ابھی ایران کے ردعمل کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ہم جلد ہی ان سے رجوع کریں گے۔

مزید پڑھیں: ایران، امریکا کا رواں ہفتے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے مذاکرات کی بحالی کا اشارہ

اس سے قبل، محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ابھی غیر یقینی صورتحال ہے، اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔

معاہدے کی شرائط کے تحت واشنگٹن کو کچھ پابندیاں اٹھانا ہوں گی لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے کی طرف واپسی مشرق وسطیٰ میں جوہری بحران کو روکنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ کہ اگر ہمیں یہ معاہدہ مل جاتا ہےتو ہم کچھ پابندیاں اٹھا لیں گے لیکن ایران کو اپنا جوہری پروگرام ختم کرنا ہوگا۔

ایران نے امریکا سے اس بات کی بھی مانت مانگی ہے کہ آئندہ کوئی امریکی صدر اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہو گا۔

عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ایران کو یورینیم کو انتہائی محدود سطح سے افزودہ کرنے اور ذخیرہ کرنے سے منع کیا جائے گا اور اسے بارود بنانے کے لیے درکار مواد سے منع کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری معاہدے کو مزید التوا میں نہیں رکھا جاسکتا، جرمنی

اس کے علاوہ، عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران کو 20 فیصد اور 60 فیصد یورینیم میں سے کسی کو بھی رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایرانی افزودگی پر سخت پابندیوں کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے کے معاہدے سے نکل جائے تو بھی اسے ایسا کرنے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں