دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 25 اگست 2022
چیئرمین تحریک انصاف ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہوئے— فوٹو: رائٹرز
چیئرمین تحریک انصاف ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہوئے— فوٹو: رائٹرز
پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں—فوٹو : ڈان نیوز
پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں—فوٹو : ڈان نیوز
پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی دہشت گردی کے مقدمے میں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں یکم ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا جبکہ دفعہ 144 کے مقدمے میں بھی سابق وزیر اعظم کی ضمانت منظور کرلی گئی۔

جمعرات کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو دھمکیاں دینے کے الزام میں درج دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے عمران خان انسداد دہشت گردی عدالت پہنچے، اس موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں اضافی سیکیورٹی تعینات کی گئی تھی۔

عمران خان کی آمد سے قبل دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی ضمانت کے لیے درخواست بھی دائر کردی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا گیا تھا کہ پولیس نے انتقامی کارروائی کے تحت انسداد دہشت گردی کا مقدمہ بنایا، عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔

درخواست ضمانت پر سماعت دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے کی، اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری، پرویز خٹک اور فیصل جاوید بھی کمرہ عدالت میں پہنچے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان نے ابتدائی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پہلی ایف آئی آر دیکھیں، مجسٹریٹ علی جاوید مقدمے کا مدعی ہے، پراسیکیوشن کے مطابق تین لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں، آئی جی، ایڈیشنل آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا کا نام لکھا گیا، ان تینوں میں سے کوئی بھی مدعی نہیں بنا۔

بابر اعوان نے کہا کہ پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا، ’شرم کرو‘ کو دھمکی بنا دی گئی ورنہ اس حکومت کے کئی وزیر اندر ہوتے، آئی جی اور ڈی آئی جی کو کہا تمہیں نہیں چھوڑنا کیس کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے اقوام متحدہ نے نوٹس لیا ہے اور پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔

بابر اعوان نے عمران خان کی جانب سے خاتون مجسٹریٹ کے خلاف ایکشن لینے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایکشن لیا اور ہم ہائی کورٹ گئے ہیں۔

سماعت کے دوران جج نے استفسار کیا کہ کیا یہاں پر ریاست کا کوئی نمائندہ ہے؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ نہیں، آج نوٹس جاری کیا جائے گا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوٹر کوئی نہیں تو آپ دلائل نہ دیں، بابر اعوان نے جواب دیا کہ جن کو مخاطب کیا گیا وہ اس کیس کے مدعی ہی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریلی سے خطاب کرنے پر بھی عمران خان کے خلاف نیا مقدمہ درج کیا گیا، اسی مقدمہ میں اسد عمر کو نامزد کیا گیا جو لاہور میں تھے۔

بابر اعوان کی جانب سے عمران خان کی زیادہ مدت تک عبوری ضمانت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے جج نے کہا کہ زیادہ مدت تک کی ضمانت نہیں دے سکتے، ایک ہفتے کی دیں گے، یکم ستمبر تک عبوری ضمانت دیتے ہیں اور پولیس کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے یکم ستمبر تک پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا۔

عدالت نے مدعی اور پراسیکیوٹر کو جواب طلبی کے لیے نوٹس بھی جاری کر دیا۔

سیشن کورٹ سے بھی عمران خان کی ضمانت منظور

دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت کے بعد دفعہ 144 کے مقدمے میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور ہوگئی۔

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود شہباز گل کی حمایت میں احتجاجی جلسہ کرنے پر درج مقدمے میں ضمانت کے لیے عمران خان اپنے وکلا بابر اعوان، فیصل چوہدری، سردار مصروف خان اور قیصر جدون کے ہمراہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئے۔

اس موقع پر پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری ایف 8 کچہری میں تعینات تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمے میں 5 ہزار کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کر لی اور 7 ستمبر کو پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کی عبوری ضمانت بھی 5 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرلی گئی۔

یہ فیصلے کرنے اور کروانے والے ملک کا سوچیں، عمران خان

بعد ازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ ساری دنیا میں پاکستان کا مذاق اڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل پر دوران حراست تشدد اور جنسی استحصال ہوا، عدالت میں تصدیق بھی ہوئی کہ شہباز گل پر تشدد ہوا ہے، اس پر اگر میں یہ کہوں کہ میں اس کے ذمہ دار آئی جی، ڈی آئی جی اور جان بوجھ کر شہباز گل کو واپس ریمانڈ پر بھیجنے والی اس مجسٹریٹ کے خلاف قانونی ایکشن لوں گا اور اس پر مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ بنا دیا جائے تو آپ خود سوچیں کہ ساری دنیا میں اس بات پر کتنا مذاق اڑا۔

عمران خان نے کہا کہ اس بات پر ساری دنیا میں خبر بنی ہے، پاکستان کا ایسا تاثر گیا ہے جیسے یہ کوئی بنانا ری پبلک ہے کہ یہاں کوئی قانون ہے ہی نہیں، جو مرضی جس پر کارروائی کردیں اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کو اس بات پر گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جو بھی یہ فیصلے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں ان کو اپنے ملک کا سوچنا چاہیے، یہ لوگ پی ٹی آئی کی طاقت سے خوفزدہ ہورہے ہیں جو پھیلتی جارہی ہے، ضمنی انتخابات بھی جیتتی جارہی ہے، پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کررہی ہے، اس خوف سے یہ لوگ ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے اور اپنی ذات کو بچانے کے لیے ملک کا مذاق بنا رہے ہیں۔

ایک صحافی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں بہت خطرناک ہوں‘۔

’کل یہ معاملہ ہائی کورٹ لے کر جائیں گے‘

سماعت کے بعد پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری اور فیصل جاوید خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ قوم کے دھڑکتے دلوں کی دھڑکن پر دہشتگردی کا پرچہ کاٹا گیا، جس تقریر کی بنیاد پر یہ پرچہ کاٹا گیا اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم قانونی ایکشن لیں گے، جو ہر پاکستانی شہری اور پاکستان کے سب سے بڑی سیاسی لیڈر کا تو لازمی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ الحمد اللہ یہاں تو ضمانت مل گئی ہے لیکن جو کوششیں یہ لوگ کررہے ہیں اگر یہ کامیاب ہوگئیں تو یہ اس میں پاکستان کی بہتری نہیں ہو سکتی، عمران خان پر اللہ کا سایہ ہے، پاکستانی قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، ان شا اللہ یہ ناکام ہوں گے اور حقیقی آزادی کی تحریک جلد کامیاب ہوگی۔

مزید پڑھیں: گرفتاری کی کوشش کی گئی تو کارکنوں کا رد عمل نہیں روک سکتے، اسد عمر

اس موقع پر فواد چوہدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر غلط بنیادوں پر دہشتگردی کا مقدمہ درج کیا گیا، اس کے خلاف ہائی کورٹ میں جانے کے لیے پہلے ضمانت لینا ضروری تھی جس کے لیے آج ہم پیش ہوئے اور ضمانت حاصل کی، ان شا اللہ کل یہ معاملہ ہائی کورٹ میں لے کر جائیں گے اور یہ ایف آئی آر منسوخ ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس جدوجہد کا آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے، اگر اللہ کی مدد شامل حال رہی تو 10 ستمبر تک اس حکومت سے جان چھڑا لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری کا عدلیہ کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کا مشورہ

سینیٹر فیصل جاوید خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت اس امپورٹڈ حکومت کی بوکھلاہٹ ان کی حرکتوں سے آشکار ہے، ان کے پاس عمران خان کے خلاف ایک بھی چیز نہیں ہے اور یہ بوگس مقدمات بنا کر عمران خان کو ٹیکنکلی آؤٹ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان پر مقدمات کرکے پاکستان کے کون سے مسائل حل ہو رہے ہیں؟ یہ ساری چیزیں اس لیے کررہے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ ہٹ جائے لیکن پوری قوم عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، ملک کے تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور ہم امید بھی یہی کرتے ہیں کہ ستمبر میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونا چاہیے۔

سیکیورٹی کے سخت انتظامات

قبل ازیں عمران خان کے عدالت آمد کے موقع پر جوڈیشل کمپلکس کے چاروں اطراف کی سڑکیں بند کردی گئیں، کسی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے۔

پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں—فوٹو : ڈان نیوز
پولیس اور ایف سی کے 400 اہلکار تعینات کیے گئے ہیں—فوٹو : ڈان نیوز

عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس کے گیٹ پر ہی روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے پولیس افسران کے اہلکاروں کو ہدایت کی گئی کہ عمران خان جوڈیشل کمپلیکس کی حدود میں پیدل داخل ہوں۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے عمران خان کی 25 اگست تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔

’عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو کارکنان سڑکوں پر نکل آئیں‘

قبل ازیں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پارٹی کارکنان کو واضح ہدایات جاری کی گئی تھی کہ اگر آج عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو سڑکوں پر نکلیں اور پھر اگلے روز اسلام آباد کا رخ کریں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے نجی چینل 'جیو ٹی وی' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ عمران خان کی ضمانت مسترد ہو۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ عمران خان کو عدالت سے گرفتار کیا جائے اور مجھے یقین ہے کہ سیشن جج کو دھمکی دینے پر عدالت ان کے خلاف مکمل انکوائری عمل میں لائے گی۔

گزشتہ روز پی ٹی آئی رہنما اور وکیل بابر اعوان نے کہا تھا کہ عمران خان حکومت کی جانب سے اپنے خلاف درج مقدمے میں ضمانت کے لیے ذاتی طور پر انسداد دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کریں گے۔

پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں بابر اعوان نے کہا تھا کہ عمران خان نے آج پارٹی کی قانونی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سابق وزیر اعظم کی ضمانت کی درخواست انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں دائر کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’عمران خان خود وہاں جائیں گے، انشا اللہ کل ہم سب مل کر وہاں جائیں گے‘۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کا مقدمہ، عمران خان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد پولیس نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے، شیریں مزاری کا دعویٰ

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں