اقوام متحدہ کی پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے16کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل

اپ ڈیٹ 30 اگست 2022
یو این سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان مصائب و مشکلات میں گھرا ہوا ہے — فوٹو: ڈان نیوز
یو این سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان مصائب و مشکلات میں گھرا ہوا ہے — فوٹو: ڈان نیوز

اقوام متحدہ اور پاکستانی حکومت نے ملک میں تباہ کن، ہلاکت خیز سیلاب سے نمٹنے میں مدد کے لیے 16 کروڑ ڈالر کی ہنگامی اپیل کردی۔

اس تباہ کن سیلاب کے دوران ملک بھر میں 1100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر تباہ، تیار فصلیں برباد اور سوا 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ میں منعقدہ تقریب میں نشر کیے گئے بیان میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ پاکستان مصائب و مشکلات میں ڈوبا ہوا ہے، پاکستانی عوام تباہ کن مون سون کا سامنا کر رہے ہیں، مسلسل بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی قدرتی آفت کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ اس سے بہت زیادہ شہری زخمی ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے، اسکول تباہ ہوچکے، اسباب زندگی برباد ہوچکے، اہم انفرا اسٹرکچر نیست و نابود ہوگیا، لوگوں کے خواب چکنا چور اور ان کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کے لیے فلاحی ادارے کیا کررہے ہیں اور انہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ تباہ کن سیلاب سے ملک کا ہر صوبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ بطور یو این ہائی کمشنر برائے پناہ گرین میں نے پاکستان کے لوگوں کی فراخ دلی دیکھی ہے، انہوں نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی مدد کی، ایسے فیاض لوگوں کی مشکلات نے میرا دل توڑ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کی مدد کے لیے پاکستانی حکومت نے نقد رقم دینے کے ساتھ دیگر امدادی کارروائیوں کے لیے فنڈز جاری کیے ہیں لیکن تباہی اتنے بڑے پیمانے پر ہے کہ مطلوبہ ضروریات سیلاب کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال پوری دنیا کی توجہ اور ترجیحات کا تقاضہ کرتی ہے، اقوام متحدہ 16 کروڑ ڈالرز کی ہنگامی اپیل کر رہا ہے، یہ فنڈ 52 لاکھ لوگوں کو خوراک، پانی، صفائی، ہنگامی تعلیم، تحفظ اور صحت کی مدد فراہم کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں سے ایک ہے، اس خطے میں رہنے والے عوام کے ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کے خدشات دیگر خطوں سے 15 فیصد زیادہ ہیں۔

مزید پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو 10 ارب ڈالر درکار ہیں، احسن اقبال

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پوری دنیا میں موجود لوگ خطرے سے دوچار ہیں، پاکستان نے مشکل کی اس گھڑی میں عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت مل کر فوری طور پر اس بحران میں جوابی اقدامات کرنے چاہئیں، مشکل کی اس گھڑی میں ہم سب کو آگے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی تباہی سے قبل ہمیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بیدار ہوجانا چاہیے، آج پاکستان اس تباہی کا شکار ہوا ہے، کل آپ کا ملک بھی اس کا نشانہ بن سکتا ہے۔

عالمی برادری ضرورت مند پاکستانیوں کی مدد کرے، بلاول بھٹو

فوٹو:ڈان نیوز
فوٹو:ڈان نیوز

قبل ازیں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی ہنگامی اپیل پر بھرپور ردِعمل دے کر ضرورت مند پاکستانیوں کی مدد کریں کیوں کہ ‘ہمیں نہ صرف فوری ریلیف ریسکیو کوششیں کرنی ہیں بلکہ تباہ ہونے والے علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو بھی کرنی ہے’۔

دفتر خارجہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران سیلاب سے ہونے والی تباہی سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں برس سندھ میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا جس کے نتیجے میں شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئرز پگھلے جہاں آرکٹکٹ کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو ہم سیلاب دیکھ رہے ہیں یہ اسی موسمیاتی تبدیلی کی شدت کا مظہر ہے، بے مثال کلاؤڈ برسٹ، مسلسل اور شدید بارشوں نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی جس سے نہ صرف شہروں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی، پہاڑی سیلاب آئے، دریاؤں میں طغیانی آئی۔

یہ بھی پڑھیں: اقوامِ متحدہ آج پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے 16 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کرے گی

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں انسانی جانوں، روزگار اور مویشیوں کا نقصان ہوا جبکہ املاک اور انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا جس سے سب سے زیادہ پاکستان کے جنوبی، شمالی اور وسطی حصے متاثر ہوئے بالخصوص سندھ اور بلوچستان۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ یہ تباہی کی یہ سطح 2010 میں آنے والے شدید سیلاب سے بڑھ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ قدرت ہمیں ایک نیا پیغام بھیج رہی ہے اور اپنی جغرافیائی لوکیشن اور دیگر پہلوؤں کی وجہ سے پاکستان اس صدی کے سب سے گہرے اثر گلوبل وارمنگ کا گراؤنڈ زیرو بن چکا ہے۔

سیلاب کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں ہر طرف صرف پانی ہے، 72 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جاچکا ہے، 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جو ایک چھوٹے ملک کی آبادی کے برابر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین اور بچوں سمیت 1100 سے زائد افراد اپنی جانیں ہار چکے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہیں، روزگار شدید متاثر، مویشیوں کا نقصان اور فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دربدر ہو کر کیمپ اور کھلے آسمان تلے دن اور رات بسر کرنے پر مجبور ہیں، خوراک، صاف پانی، شیلٹر اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی کے فقدان کی وجہ سے روز بروز ان کی زندگی مشکل سے مشکل ترین ہوتی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بجلی تاحال معطل، خیبرپختونخوا میں مزید 8 افراد جاں بحق

بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ اہم انفرا اسٹرکچر مثلاً سڑکیں، ریلوے نیٹ ورک اور پل بری طرح متاثر یا تباہ ہوگئے ہیں، یہ متاثرین کو محفوظ جگہ منتقل کرنے، امدادی سامان پہنچانے کی ہماری کوششوں کو مشکل بنا رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں گزشتہ 2 ماہ سے طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے حالات پہلے ہی بگڑے ہوئے تھے وہاں مسلسل بارشوں کے باعث صورتحال مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے لیے یہ کسی قومی ایمرجنسی سے کم نہیں، خاص کر خواتین اور بچے اس تباہی سے سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں، یہ ان کی زندگیاں بدل دینے والا تجربہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ذاتی طور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور لوگوں کا اپنے پیاروں کو کھو کر گھروں سے دربدر ہوجانے کا دکھ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ان کی آنکھوں میں سب کچھ کھو دینے کا درد اور تکلیف دیکھی ہے جو اپنے مستقبل کے بارے میں ٖغیر یقینی کا شکار اور اگلے وقت کے کھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو 10 ارب ڈالر درکار ہیں، احسن اقبال

ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ اپنی بقا اور زندگیوں کی دوبارہ تعمیر کی لیے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں، انسانی مصائب میں مزید اضافہ سیلاب کے باعث پیدا ہونے والے معاشی اثرات کر رہے ہیں جس نے ہمارے محدود وسائل کو مزید تنگ کردیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت پاکستان اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے اور اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر امدادی کاموں کی قیادت کر رہی ہے اور قومی کوششوں کے تحت ہم نے 17 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی نقد رقم براہ راست سیلاب متاثرین کو فراہم کرنے کے لیے مختص کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ رقم 15 لاکھ خاندانوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے جس سے ہر خاندان کو فوری 25 ہزار روپے ملیں گے جبکہ 5 ارب روپے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو ریلیف اور امدادی کارروائیوں کے لیے جاری کی ہے۔

وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ حکومت سیلاب کے نتیجے میں مرنے والوں کے ورثا کو 10 لاکھ روپے، زخمیوں اور جزوی طور پر متاثر ہونے والے مکانات کے لیے ڈھائی لاکھ روپے جبکہ مکمل تباہ ہونے والے مکانات کے لیے 5 لاکھ روپے معاوضہ دے رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلئے 16کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کرے گی

انہوں نے مزید بتایا کہ مالی امداد کے ساتھ ساتھ خوراک کے پیکٹس، شیلٹرز کے لیے خیمے اور صاف پانی اور حفظانِ صحت کی اشیا بھی صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ذریعے فراہم کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی کوششوں میں پاکستانی عوام، سول سوسائٹی اور فلاحی تنظیمیں آگے بڑھ چڑھ کر حصہ بٹا رہی ہے، جبکہ پی ایم ریلیف فنڈ 2022 بھی قائم کردیا گیا ہے۔

بلاول نے کہا کہ یہ تباہی بہت بڑی ہے اور ہماری صلاحیتوں، وسائل سے کئی زیادہ ہے جس سے لاکھوں افراد بقا کی بنیادی ضروریات اور طبی سہولیات سے محروم ہوگئے ہیں اور ان ضروریات اور انہیں تیزی کے ساتھ اس بڑے پیمانے پر پورا کرنے میں آنے والا فرق انتہائی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے عالمی برداری کا فوری تعاون درکار ہے، ہم ابتدائی مرحلے میں دنیا بھر میں اپنے دوست اور شراکت دار ممالک کی جانب سے فوری فراہم کردہ تعاون پر انتہائی شکر گزار ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک سے ریلیف کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار

انہوں نے کہا کہ ہم اس ردِعمل اور کوششوں کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے یو این فلیش اپیل فار پاکستان فلڈ ریسپانس پلان 2022 کا اجرا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اپیل میں جن شعبوں پر ترجیحی توجہ دی گئی ہے اس میں تعلیم، غذائی تحفظ، زراعت، طبی سہولیات، غذائیت، تحفظ، پناہ گاہ اور غیر خوراک اشیا، پانی، صفائی ستھرائی اور حفظانِ صحت شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں لائیو اسٹاک کے شعبے میں بھی تعاون درکار ہے جبکہ ریلیف مشینری اور آلات، شیلٹرز، مچھر دانیوں، خیموں کی فوری ضرورت ہے، یہ اپیل بڑے پیمانے پر ضروریات کا ایک حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں عالمی برادری پر زور دیتا ہے کہ وہ اس ہنگامی اپیل پر بھرپور ردِ عمل دے کر ضرورت مند پاکستانیوں کی مدد کریں، مجھے امید ہے کہ ہمارے شراکت دار اس آفت پر فوری ضرورت اور ہماری محدود معیشت کے پیشِ نظر انسانی امداد فراہم کرتے ہوئے ترقیاتی امداد میں کٹوتی نہیں کریں گے جس کا اس سے پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں نہ صرف فوری ریلیف ریسکیو کوششیں کرنی ہیں بلکہ تباہ ہونے والے علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو بھی کرنی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ: سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار

انہوں نے کہا کہ ہمیں جس آفت کا سامنا ہے یہ براہِ راست اور نہ محدود کی جانی والی موسمیاتی تبدیلی کا مظہر ہے جبکہ ہم کرہ زمین پر ایک فیصد سے بھی کم گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کرتے ہیں۔

‘پاکستانی قوم اور دوست ممالک کی مدد سے صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے’

بعد ازاں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولیان ہارنیس کے ہمراہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 35 ارب روپے مختص کیے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے 46 لاکھ کمزور طبقات کو ٹارگٹ کرتا ہے، ہر متاثرہ خاندان کو فوری طور پر 25 ہزار روپے دیے جائیں گے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک سے ریلیف کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب سے بے تحاشہ نقصانات ہوا ہے، پاکستان کے 30 سال کے اوسط کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی صورتحال ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرین کی مدد کے لیے پاکستانی قوم، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظمیوں نے بھرپور امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے، میں فوج اور سول انتظامیہ کو بھی ریلیف کی کوششیں کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، تاہم وسائل سے زیادہ چیلنجز ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بین الاقوامی پارٹنرز سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور سیلاب سے متاثرین کی مدد کے لیے پاکستانی قوم کی معاونت کریں تاکہ ان غیر معمولی چیلنجز سے نبردآزما ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اظہار یکجہتی کرنے اور پہلے سے ہنگامی امداد فراہم کرنے پر بین الاقوامی شراکت داروں کے شکر گزار ہیں، حکومتی کوششوں کی سپورٹ کرنے پر اقوام متحدہ کے بھی شکر گزار ہیں۔

فصلوں کی تباہی اور سبزیوں کی قلت کی وجہ سے بھارت سے درآمدات سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بعد کی چیزیں ہیں، ہم نے بھارت سے تجارت کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو اور ریلیف کا کام اب بھی جاری ہے، بارش کے دوران امدادی کارروائیاں محدود ہوتی ہیں، بارش رکنے کے بعد ہم ریسکیو اور ریلیف کے لیے نکل سکے، سندھ کے 25 اضلاع، بلوچستان کے 30، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا ڈوبا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبہ سندھ کی سطح سمندر کے برابر ہے، جس کی وجہ سے ایک دو دن میں نہیں بلکہ پانی کی نکاسی میں مہینوں لگیں گے۔

وزیرخارجہ کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ضرورت زیادہ ہے صلاحیت کم ہے، 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہیں، جو کہ سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، یہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، ان کے گاؤں ڈوب چکے ہیں، ہمارے ملک میں اتنے خیمے ہیں اور نہ ہی صلاحیت ہے کہ یہ خیمے اتنی جلدی بنا سکیں، کھانا پہنچانے کے بھی مسائل ہیں کیونکہ جب بارشیں ہو رہی تھیں تو کھانا پکانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم اور دوست ممالک جو مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے ہماری صلاحیت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس وقت تک طلب بہت زیادہ ہے جبکہ سپلائی بہت کم ہے، یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر امداد کی اپیل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان ہو، پنجاب ہو، آزاد کشمیر وہاں پر بھی سیلاب متاثرین کے لیے وفاقی حکومت مدد کرنے کے لیے تیار ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے پہلے ہی حکومت براہ راست ریلیف فراہم کررہی ہے۔

بین الصوبائی ہم آہنگی سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ایسا کوئی میئر یا ریاست نہیں ہوگی جواکیلے بین الاقوامی آفت کا مقابلہ کرسکے، عام صورتوں میں صوبائی حکومتیں اپنے طور پر بندوبست کردیتے ہیں، یہی موقع ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کو صوبائی حکومت کو مدعو کرنا چاہیے۔

لوگ ترس رہے تھے جبکہ ہیلی کاپٹرعمران خان کے جلسہ گاہ کو خشک کر رہا تھا

ان کا کہنا تھا میں سمجھتا ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے امداد پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت کا بروقت فیصلہ تھا، ہماری نظر میں جب بلوچستان اور سندھ اس مشکل وقت سے گزر رہا تھا، جب جنوبی پنجاب، راجن پور اور ڈی جی خان مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، اس وقت وفاقی حکومت مدد کرنے کے لیے نہ صرف تیارتھی بلکہ دلچسپی بھی لے رہی تھی، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں جلسوں کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے، خیبرپختونخوا میں خوفناک مناظر سامنے آئے، لوگ ہیلی کاپٹر کے لیے ترس رہے تھے جبکہ وہی ہیلی کاپٹر عمران خان کے جلسہ گاہ کو خشک کرنے میں لگے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے، جن کی دلچسپی ہے کہ وہ عام عوام کے درمیان میں رہ کر ان کی مشکل اور دکھ میں شامل ہو کر ان کی مدد کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں وہ مدد کریں، جو جلسہ جلسہ کھیلنا چاہتے ہیں وہ پہلے بھی جلسہ جلسہ کھیل رہے تھے اور اب بھی کھیل رہے ہیں، اس سے ہم اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، موجودہ وقت میں ہر پاکستانی کی پہلی ترجیح وہ لوگ ہیں جو مون سون کے نتیجے میں سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

سیلاب متاثرین عالمی برادری کی سپورٹ کے مستحق ہیں، جولیان ہارنیس

اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولیان ہارنیس نے پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے سندھ اور بلوچستان کے اضلاع کا دورہ کیا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں، ان لوگوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہے، آج پاکستان کے لوگ ان متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ڈپٹی کمشنرز، پولیس، فوج اور مذہبی برادریاں ان متاثرین کی مدد کر رہی ہیں، تاہم اس سیلاب کی وجہ موسمیاتی تبدیلی کو بتایا جارہا ہے، موسمیاتی تبدیلی انڈسٹرلائزیشن کی وجہ سے ہوتی ہے، اس کی وجہ بین الاقوامی ہے لہٰذا عالمی برادری کو اس مدد میں حصہ ملانا چاہیے۔

جولیان ہارنیس نے کہا کہ جب اس سطح پر تباہی ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، اس کی مثال یہ ہےکہ پاکستان میں خیمے بنانے والے مکمل صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں لیکن وہ لاکھوں بے گھر افراد کی ضرورت کے مطابق خیمے نہیں بناسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی برداری کے لیے میسیج ہے کہ یہ صورتحال ہے اور ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے، یہ اس سپورٹ کے مستحق ہیں، یہ ابھی مسائل کی شروعات ہے، ملک کے دیگر حصوں میں آنے والے مہینوں میں سخت سردی ہوگی، جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دیگر مسائل جنم لیں گے جس کی وجہ سے ہم بہت زیادہ منظم ہو کر متاثرین کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپیل یہ ہے کہ غذائی قلت کا شکار بچوں کو غذا فراہم کریں، ہنگامی خدمت، طبی خدمات، خوارک کی فراہمی، خیمے اور سب سے اہم مویشیوں کی ویکسی نیشن ہے، 16 کروڑ ڈالر کی اپیل میں یہ چیزیں شامل ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم کام کر رہے ہیں، ہم نے پینے کے پانی، غذا اور مویشیوں کی ویکسنیشن کے لیے 30 لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں، لسبیلہ میں پہلے ہی ویکسی نیشن شروع ہو چکی ہے، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پہلے ہی طبی امداد فراہم کر رہا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام خوراک کی فراہمی میں معاونت کر رہا ہے، اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر موصول ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کراچی ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں خیمے اور دیگر امدادی سامان آرہا ہے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے ماہرین کل آرہے ہیں جو سپلائی چین پر مدد کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں