پاکستان میں 64 لاکھ سیلاب متاثرین کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے، عالمی ادارہ صحت

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ سیلاب کے سبب 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں—فوٹو : اے ایف پی
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ سیلاب کے سبب 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں—فوٹو : اے ایف پی

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بارشوں سے آنے والے سیلاب سے ملک بھر کے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے جبکہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سیلاب میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور 15 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں، ان میں سے 64 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے جن میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے 4 لاکھ 21 ہزار افراد بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک ہزار191 ہوگئی، پانی دادو شہر میں داخل

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ 28 اگست تک پاکستان میں صحت کے 888 مراکز کو نقصان پہنچ چکا ہے جن میں سے 180 مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ پاکستان پہلے ہی کورونا سمیت متعدد وباؤں سے لڑ رہا ہے، صحت کی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ ہوئی تو موجودہ صورتحال میں بیماری کے پھیلاؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈائیریا، ڈینگی بخار، ملیریا، پولیو اور کورونا جیسی بیماریوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافہ خاص طور پر متاثرین کے کیمپوں اور ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں پانی اور صفائی کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان، خیبر پختونخوا میں سیلاب سے تباہی، مزید 19 افراد جاں بحق

ڈبلیو ایچ او نے متاثرہ اضلاع میں موبائل میڈیکل کیمپ بھی فراہم کردیے ہیں جہاں صاف پانی تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے 17 لاکھ ایکوا ٹیب فراہم کیے گئے ہیں اور متعدی بیماریوں کے نمونوں کی کلینکل جانچ کو یقینی بنانے کے لیے نمونے جمع کرنے کی کٹس فراہم کی گئی ہیں۔

دریں اثنا بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر نے ان سیلابوں کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا۔

انہوں نے کہا کہ ’بظاہر جو عوامل نظر آرہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی یہ سطح غیر معمولی ہے، یہ صرف ایک برا مون سون کا موسم نہیں ہے، یہ اس سے بڑھ کر ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ ماحولیاتی تباہی کا دور ہے‘۔

پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد کیلئے عالمی ممالک پر دباؤ

سفارت کاروں اور سائنسدانوں نے کہا ہے کہ کاربن کے اخراج کے سبب عالمی سطح پر آلودگی کے بڑے حصہ دار ممالک کو موسمیاتی خطرات سے دوچار پاکستان جیسے ممالک کی مالی مدد کے لیے اخلاقی دباؤ محسوس کرنا چاہیے جو عالمی سطح پر کاربن کے اخراج کے 0.5 فیصد سے بھی کم کے ذمہ دار ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سیول میں پاکستان کے سفیر اور اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات میں ترقی پذیر ممالک کے سب سے بڑے مذاکراتی بلاک کے سربراہ نبیل منیر نے کہا کہ یہ محض حادثہ نہیں ہے، سائنس ثابت کرتی ہے کہ یہ تواتر سے ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ان آفات کا اثر صرف بڑھنے والا ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہوگا، انسانی اور معاشی اثرات پہلے ہی غیرمعمولی ہیں اور یہ تباہی کا تسلسل ہے، بارشیں ابھی بھی جاری ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں چوبیس گھنٹے نگرانی کی ہدایت

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جنہوں نے گلوبل وارمنگ میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے وہ اکثر اس کے بدترین اثرات سے متاثر ہوتے ہیں۔

یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹس کی پرنسپل کلائمیٹ سائنس دان کرسٹینا ڈہل نے کہا کہ ’پاکستان نے صنعتی انقلاب کے بعد سے ماحول میں تپش کے اخراج میں 0.5 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالا ہے جبکہ امریکا 25 فیصد کا ذمہ دار ہے‘۔

یاد رہے کہ مارچ میں جنوبی ایشیا کے مختلف حصوں میں گرم موسم کا آغاز ہوا اور پاکستان میں درجہ حرارت ریکارڈ سطح پر نوٹ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: حالیہ سیلاب نے سوات کے گاؤں میں 12 سال قبل ہوئی تباہی کے زخم تازہ کردیے

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کلائمیٹ گروپ کے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے ہیٹ ویو کا امکان 30 گنا زیادہ کر دیا ہے۔

تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز برفانی جھیلوں کے سیلاب کا سبب بن سکتے ہیں، یونیورسٹی آف ریڈنگ میں ہائیڈرولوجی اور ماحولیاتی سائنس کی ایک محقق ہیلن گریفتھ نے کہا کہ یہ ایک مجموعی اثر کا باعث بن سکتا ہے جو کہ اوسط سے زیادہ دریا کی سطح اور اوسط سے زیادہ بارش کا سبب بنے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں