عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے کی پابندی کا حکم کالعدم قرار

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2022
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ڈیلے میکانزم پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس چینل کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے — فوٹو بشکریہ فیس بُک
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ڈیلے میکانزم پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس چینل کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے — فوٹو بشکریہ فیس بُک

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر عائد پابندی سے متعلق پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر 3 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں کہا کہ ٹی وی چینلز تاخیری سسٹم کے تحت ممنوعہ مواد کو نشر ہونے سے روکنے کے پابند ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں پیمرا قانون پر عمل کرانے کا پابند ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اگر ممنوعہ مواد نشر ہوا تو پیمرا ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے کا حکم معطل

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پیمرا کی جانب سے 20 اگست کو جاری کیے جانے والے نوٹی فکیشن کو چیلنج کیا تھا۔

عدالت کا فیصلے میں کہنا تھا کہ پیمرا کے وکیل مطمئن نہیں کر سکے کہ پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 27 کے تحت پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے۔

مزید بتایا گیا کہ پیمرا کے وکیل نے کہا کہ پیمرا نے بطور ریگولیٹر چینلز کو کہا ہے کہ وہ ڈیلے میکانزم کو یقینی بنائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پیمرا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ڈیلے میکانزم پر عمل نہیں کیا جاتا تو اس چینل کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی کے پیمرا آرڈر کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ریگولیٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی کے پیمرا آرڈر کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، اس موقع پر عمران خان کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

سماعت کے دوران پیمرا کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ شوکاز نوٹس جاری کرنے کا مقصد صرف تقریر میں ڈیلے (تاخیر) کرنا تھا۔

عدالت نے وکیل پیمرا سے استفسار کیا تھا کہ ’آپ ڈیلے پالیسی پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے؟'

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ بڑے ذمہ دار لوگ غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے ہیں، آپ نے قانون کے مطابق کام کرنا ہے، عدالت کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

وکیل پیمرا نے کہا تھا کہ ہماری ہدایات کسی ایک خاص شخص کے لیے نہیں تھیں، عدالت نے استفسار کیا تھاکہ آپ اس عدالت کے آخری آرڈر سے متفق ہیں؟ جس پر پیمرا کے وکیل نے عدالت سے اتفاق کیا۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کیا تھا کہ چیزیں مشکل نہ بنائیں، آپ کے مؤکل کی جانب سے بھی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا گیا۔

عدالت نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا تھا کہ ’گزشتہ روز جلسے میں عمران خان کی جانب سے جو بیان دیا گیا کیا وہ آئینی اور ٹھیک ہے؟ آپ پبلک میں کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی آرمی چیف محب وطن ہے یا نہیں؟ آپ کس جانب جارہے ہیں، کیوں آئینی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر عائد پابندی سے متعلق پیمرا کے احکامات معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے۔

عمران خان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیمرا کے احکامات معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سارے چینلز نے بغیر ٹائم ڈیلے کے دکھایا ہے؟ پھر تو یہ ذمہ داری نیوز چینلز پر آتی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پھر یہ براہ راست تو چلتا ہی نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ 12 سیکنڈز کا ٹائم ڈیلے ہوتا ہے تاکہ کوئی غلط بات کرے تو اسے سینسر کیا جاسکے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پھر تو ایکشن نیوز چینلز کے خلاف ہونا چاہیے، اگر کوئی سزا یافتہ نہیں تو اس پر ایسی پابندی نہیں لگائی جاسکتی، ہمارے تھانوں کا کلچر ہے کہ ٹارچر ہوتا ہے، جس جذبے سے اپوزیشن میں آکر بولتے ہیں اگر حکومت میں آکر بولیں تو صورتحال مختلف ہو، یہ قوم آج بھی تقسیم ہے اور اسے متحد کرنے کی ضرورت ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ چینلز نے ٹائم ڈیلے نہیں کیا تو پیمرا نے ہمیشہ کے لیے عمران خان کی براہ راست تقاریر پر پابندی لگا دی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ایگزیکٹوز جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ تھانے میں ٹارچر ہوتا ہے، آج تک کسی بھی ایگزیکٹو نے ٹارچر کو ایشو کے طور پر نہیں دیکھا، سب سے بڑا ٹارچر اس ملک میں جبری گمشدگیاں ہیں۔

وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا تھا کہ بادی النظر میں پیمرا نے عمران خان کی تقریر پر پابندی لگا کر اختیار سے تجاوز کیا اور موجودہ حالات میں عمران خان کی تقریر پر پابندی کی کوئی مناسب وجہ نظر نہیں آتی۔

واضح رہے کہ 21 اگست کو پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی تقاریر براہ راست نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

نوٹی فکیشن میں اس سے ایک روز قبل عمران خان کی ایف نائن پارک اسلام آباد میں کی گئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ عمران خان ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں، ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف ان کے بیانات آرٹیکل 19 کی بھی خلاف ورزی ہیں۔

نوٹی فکیشن میں تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ عمران خان کی تقاریر اور خطاب براہ راست نشر نہ کریں، تاہم ان کی ریکارڈ شدہ تقریر نشر کی جاسکتی ہے۔

نوٹی فکیشن میں واضح کیا گیا کہ عمران خان کی ریکارڈ شدہ تقریر بھی ٹائم ڈیلے کے طریقہ کار کے تحت ہی دکھائی جاسکتی ہے تاکہ ان تقاریر کی مانیٹرنگ اور ایڈیٹوریل کنٹرول یقینی بنایا جاسکے۔

یاد رہے کہ 20 اگست کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے عدلیہ کو اپنی پارٹی کے ساتھ ’متعصبانہ رویے‘ پر خبردار کرتے ہوئے نتائج کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ کی تھی۔

ڈاکٹر شہباز گل سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ’شہباز گل کو اس طرح اٹھایا گیا جیسے وہ کوئی بہت بڑا غدار ہو، اسلام آباد کے آئی جی، ڈی آئی جی ہم نے آپ کو نہیں چھوڑنا، ہم آپ کے خلاف کیس کریں گے‘۔

انہوں نے خاتون مجسٹریٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کو معلوم تھا کہ شہباز گِل پر ظلم ہوا ہے اور پھر بھی آپ نے اسے ضمانت نہیں دی، مجسٹریٹ زیبا صاحبہ آپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان کے اوپر کیس کرنے لگے ہیں، اگر شہباز گل کے اوپر کیس ہوسکتا ہے تو یہ سارے فضل الرحمٰن، نواز شریف اور رانا ثنااللہ سب پر کیس کرنے لگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گل کے ساتھ انہوں نے جو کیا، انہوں نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اڑا دیں، آج اپنے وکلا سے ملاقات کی ہے، آئی جی، ڈی آئی جی اور ریمانڈ دینے والی اس خاتون مجسٹریٹ پر کیس کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں