رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

موجودہ دور میں ہر شخص ایک سحر میں مبتلا ہے۔ سوچیے کہ اٹھ کر جانے سے پہلے آپ کی دادی کی سہیلی اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے کان میں گویا ہوتی ہیں کہ 'بیٹا آپ بھی میری سبسکرائیبر بنیے نا'۔

اس دور میں جہاں اسمارٹ فون اور وائی فائی کا استعمال عام ہے، قمر آپا (ہم ان کو یہی کہیں گے) اپنے آپ کو ایک برینڈ میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ جب آپ تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے ان کے چینل کو سبسکرائب کرلیتے ہیں (وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے دادی کو اس کا لنک بھی بھیجتی ہیں) تو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے تو 4 ہزار سبسکرائبرز ہیں۔

یہ سبسکرائبرز جو بھی ہیں وہ روزانہ کی بنیاد پر قمر آپا کی ویڈیوز دیکھتے ہیں۔ ان ویڈیوز میں قمر آپا اپنے لیونگ روم میں بیٹھ کر دانت اور پٹھوں کے درد کے لیے قدرتی علاج کے بارے میں بتاتی ہیں۔ وہ اپنے طبّی مشوروں کو اخلاقیات سے جوڑتی ہیں، پھر چاہے وہ شادیوں میں رقص ہو یا پھر بزرگوں کا ادب کرنا۔ ان کی ویڈیوز بہت دلچسپ تو نہیں ہوتیں مگر ظاہر ہے کہ 4 ہزار (اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے) لوگوں کی سوچ اس سے مختلف ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قمر آپا نے قدرتی طریقہ علاج (نیچروپیتھک مڈیسن) کی کوئی تربیت بھی حاصل نہیں کی اور نہ ہی قدرتی علاج میں انہوں نے کوئی کورس کیا ہے۔ ایک کیتھولک اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے باعث ان کی انگریزی اچھی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ گوگل سے مختلف علاج ڈھونڈتی ہیں اور اس میں کچھ تبدیلیاں کرتی ہیں تاکہ یہ ان کے اپنے لگ سکیں۔

مزید پڑھیے: 'اب ہماری نجی زندگی بھی برائے فروخت ہے'

لیکن یوٹیوب پر تو منظر ہی مختلف ہوتا ہے۔ اگر آپ ان کی ویڈیوز پر آنے والے کمنٹس پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سبسکرائبرز نہ صرف ان کی ہر بات کا یقین کرتے ہیں بلکہ انہیں نیچروپتھ کا ماہر تصور کرتے ہیں۔ ان کی کہانیاں اتنی بہترین اردو میں ہوتی ہیں جیسی آپ نے پہلے کبھی نہ سنی ہو اور ان کے چاندی جیسے بال، اس کشش میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ یوں ان سمیت ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہ قدرتی علاج میں مہارت رکھتی ہیں۔

قمر آپا کی کہانی سوشل میڈیا پر موجود پاکستان کے مختلف انفلوئنسرز کے سفر کی عکاسی کرتی ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرتی چلوں کہ یوٹیوب اور ٹک ٹاک، کانٹینٹ بنانے والوں کو ماہانہ بنیادوں پر پیسے دیتے ہیں۔ اس رقم کا براہِ راست تعلق ویڈیو پر آنے والے ویوز، ان پر چلنے والے اشتہارات اور اشتہارات پر ہونے والے کلکس کی تعداد سے ہوتا ہے۔

اِن ٹوئٹ کی رپورٹ کے مطابق، ایک عام یوٹیوبر ویڈیو کے ایک ویو سے 0.18 سینٹ کماتا ہے۔ ہر وہ شخص جس کے سبسکرائبرز ایک ہزار سے زائد ہوں اور ایک سال میں اس کے پبلک واچ آورز 4 ہزار ہوجائیں تو وہ اپنے چینل کو مونیٹائز کروانے کے بعد یوٹیوب سے آمدن حاصل کرسکتا ہے۔ ایک بہترین انفلوئنسر ایک ہزار ویوز پر 5 ڈالر کما سکتا ہے یعنی اگر اس کی ویڈیو 10 لاکھ افراد دیکھیں تو وہ اس سے 5 ہزار ڈالر کما سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: دنیا میں افرادی قوت کی کمی اور پاکستانیوں کے لیے امکانات

ای مارکیٹیئرز کے مطابق، سوشل میڈیا اشتہارات پر ہونے والی کمائی کی شرح اس سال کے اختتام تک 20 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ 80 برس سے زائد عمر کی قمر آپا بھی اب اس تیزی سے ترقی پاتے شعبے کا حصہ ہوں گی۔

ٹک ٹاک پر یوٹیوب کی نسبت کم آمدن ہوتی ہے۔ یہاں عام طور سے 10 لاکھ ویوز پر 40 سے 50 ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔

اگر ٹک ٹاک کی بات کی جائے تو یہاں ایک منٹ کے کلپ پر ایک ملین ویوز حاصل کرنا نہایت آسان کام ہے۔ جو کانٹینٹ یوٹیوب کے لیے بنایا جاتا ہے اسے ایک منٹ کے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ ٹک ٹاک پر بھی اپلوڈ کیا جاسکے۔ اس طرح کانٹینٹ بنانے والوں کو مزید محنت نہیں کرنی پڑتی۔

کانٹینٹ بنانے والے ایک سے زائد پلیٹ فارم پر چینل بنانے کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں تاکہ اگر کسی وجہ سے ایک جگہ سے ان کا اکاؤنٹ بند ہوجاتا ہے (جو زیادہ تر ٹک ٹاک پر ہوتا ہے) تو ان کے دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ انہیں دوسرے پلیٹ فارم پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس طرح وہ جو کانٹینٹ بناتے ہیں اس کی مدد سے وہ دو ذرائع سے پیسے کما سکتے ہیں۔

یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر لوگوں کے کمنٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ جو لوگ ان ویڈیوز کے ذریعے دیکھنے والوں کو اپنے کمروں اور باورچی خانوں تک لے آئے ہیں، وہ ان ویڈیوز سے پیسے کما رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عام لوگ جنہوں نے چینل تو اپنے بچوں کے عید کے کپڑے یا ہوم ورک دکھانے کے لیے شروع کیا تھا، اب وہ پوری طرح تبدیل ہوچکے ہیں۔

کسی حد تک کامیابی حاصل کرلینے کے بعد ان ویڈیوز میں 'کام پر جانے' کا ذکر بہت کم ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی جوڑا یوٹیوب چینل چلا رہا ہے تو ان میں سے ایک یا دونوں اپنی نوکری چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے کانٹینٹ پر توجہ دے سکیں۔ پھر جب انہیں پیسے ملنے لگتے ہیں تو سیر و تفریح اور شاہانہ شاپنگ کے بعد انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اس طرزِ زندگی کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔

اکثر کانٹینٹ کریئیٹرز جنہوں نے اپنی زندگی کو بھی قابلِ فروخت چیز بنا لیا ہے وہ اب ایک خاص حد تک پہنچ چکے ہیں۔ اس حد کے بعد ان کی زندگی کا عمومی پن یا ان کی صداقت اور ساکھ منجمد ہوجاتی ہے۔ وہ مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، دوستوں سے ملتے ہیں اور باہر گھومتے پھرتے ہیں لیکن یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہ چیزیں کانٹینٹ بن سکتی ہیں۔ یوں ایک عام سا آدمی یوٹیوب سے حاصل ہونے والی رقم کا عادی ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے سبسکرائبرز برقرار رکھنے، وائرل مواد فراہم کرنے اور لوگوں کو اپنی نجی زندگی میں مزید رسائی دینے کے لیے بیتاب ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: ’مستقبل ورک فرام ہوم کا ہی ہے‘

اس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ بہت ہی بہترین کانٹینٹ کریئٹرز کے علاوہ اکثر یوٹیوبر ایسے ہوتے ہیں جو ایک مخصوص حد کے بعد مصنوعی سے نظر آنے لگتے ہیں اور ناظرین کو بور کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں ناظرین انہیں دیکھنا ترک کردیتے ہیں۔

جو لوگ اس شعبے کی جانب آنا چاہتے انہیں ان سب چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ آن لائن کانٹینٹ تیار کرنے سے حاصل ہونے والی آمدنی اور شہرت میں کچھ تو ہے جس کی وجہ سے طب یا معاشیات یا کسی دوسرے شعبے میں کام کرنے والے افراد خود کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اتنے باصلاحیت، دلچسپ اور کرشماتی شخصیت کے حامل نہیں ہیں اور اس وجہ سے وہ مالی طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے مناسب نہیں ہیں۔

اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ وی لاگز اور ٹک ٹاک کی یہ کائنات مستقبل میں مزید وسیع ہوگی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ہر جگہ موجود کریئیٹرز کو ڈالر میں ہی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں موجود کریئٹرز کے پاس زیادہ فالوورز ہوں تو وہ نہ صرف ڈالر میں کما سکتے ہیں بلکہ اشتہارات کی مد میں بھی خاصی آمدن حاصل کرسکتے ہیں۔ انہیں کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہے، انہیں اپنے گھر والوں کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے (اگرچہ اس سے بہت اچھا کانٹینٹ بنے گا)۔ انہیں بس یہ کرنا ہے کہ اپنا کانٹینٹ بنانا ہے، اپنی شاپنگ دکھانی ہے اور قدرتی طریقہ علاج دکھانا ہے۔

یوٹیوب پر اگر آپ کے سبسکرائبرز یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی چیز کے ماہر ہیں تو پھر آپ ماہر ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو ہر کسی کو اس جانب راغب کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر ہر پہلو منظر عام پر لے آئے۔


یہ مضمون 07 ستمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں