انصاف کا تقاضا ہے کہ دنیا پاکستان کی ہنگامی بنیاد پر مالی مدد کرے، انتونیو گوتریس

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2022
وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ہمراہ کیمپوں کا دورہ کیا—فوٹو: شہباز شریف ٹوئٹر
وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ہمراہ کیمپوں کا دورہ کیا—فوٹو: شہباز شریف ٹوئٹر
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے وزیراعظم کے ہمراہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا—فوٹو: پی پی پی میڈیا سیل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے وزیراعظم کے ہمراہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا—فوٹو: پی پی پی میڈیا سیل
انتونیو گوتریس نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے تفصیلات جاننا شدید باعث تکلیف ہے—تصویر: اے پی پی
انتونیو گوتریس نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے تفصیلات جاننا شدید باعث تکلیف ہے—تصویر: اے پی پی

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے پاکستان کے تباہ کن سیلاب کے حوالے سے کہا ہے کہ 'ملک کو اس بحران سے نکلنے کے لیے بھاری مالی امداد کی ضرورت ہے، یہ یک جہتی یا فراخ دلی کا سوال نہیں بلکہ انصاف کا تقاضا ہے'۔

آج وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ انتونیو گوتریس سکھر پہنچے جہاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔

اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے تفصیلات جاننا شدید باعث تکلیف ہے، جان و مال سمیت ہر چیز اس سیلاب کی نذر ہوگئی ہے لیکن یہ بریفنگ سننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ابھی امید نہیں کھوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے، انتونیو گوتریس

انتونیو گوتریس نے کہا کہ عالمی دنیا کا اس صورتحال کے حوالے سے حقائق جاننا ضروری ہے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کو بڑھایا، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی دنیا کو ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے 3 چیزیں سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی چیز یہ ہے کہ پاکستان کو اس بحران سے نکلنے کے لیے بھاری مالی امداد کی ضرورت ہے، یہ ایثار کا نہیں انصاف کا تقاضا ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ دوسری چیز یہ ہے کہ ہمیں قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بند کرنا ہوگی، سائنسی حلقوں کے مطابق ہمیں 2023 تک ان گیسوں کا اخراج 45 فیصد تک کم کرنا ہوگا، میں اس صدی کے اختتام یا 2050 کی بات نہیں کررہا بلکہ یہ ہمیں ابھی اسی وقت کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم پہلے ہی ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی سے اس بری طرح متاثر ہو رہی ہے، اس لیے اس سے نمٹنے اور بحالی کے اقدامات کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں دوبارہ اس صورتحال کا سامنا کرنے کے حوالے سے ان ممالک کے لیے گائیڈ لائنز بھی طے کرنا ہوں گی جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور پاکستان بھی ان میں شامل ہے، اس کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھیں: ہم تنہا سیلاب متاثرین کی زندگی کی تعمیر نو نہیں کر سکتے، وزیر خارجہ

انتونیو گوتریس نے کہا کہ اب تک اس کے نقصانات اور تباہ کاریوں کے حوالے سے سنجیدہ گفتگو نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے عوام سے بھرپور اظہار یکجہتی کرتے ہیں، ہم اس حوالے سے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے، ہم اس حوالے سے آگاہی کو فروغ دیں گے اور ان ممالک سے تعاون کی اپیل کریں جو پاکستان کی امداد کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے عوام کے ساتھ ہیں اور ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، عالمی برادری اس وقت پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئے کیونکہ پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو فرنٹ لائن میں ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا سیلاب زدہ علاقوں میں آبی امراض سے نمٹنے کیلئے امداد کا اعلان

‘جی20 اور امیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں’

بعد ازاں کراچی میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہم نے قدرتی آفات کے حوالے سے ہنگامی حالات کا اعلان کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے تباہی ہوئی ہے، موسمیاتی تبدیلی ہمارے نظام کو بدترین طریقے سے تباہ کررہی ہے، میں نے دنیا میں بدترین قدرتی آفات دیکھی ہیں لیکن موسمیاتی تبدیلی سے اس طرح کی تباہی نہیں دیکھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آج میں نے جو دیکھا ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا، سیلاب سے ایک ہزار 300 سے زائد جانی نقصان ہوا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ہیں، مویشیاں اور فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ امدادی کارکن اور عام افراد لوگوں کی مدد کر رہے ہیں، اسی طرح اس دورے کے موقع میرے لیے سب سے زیادہ جذباتی لمحات پیش آئے جب خواتین اور مردوں کے گروپس کی بات سنی کہ وہ اپنی املاک بچاسکتے تھے لیکن اپنے ہمسائیوں کی مدد کے لیے سب گنوا دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ دنیا میں جو لوگ طاقت ور ہیں وہ اس مثال کی تقلید کریں گے اور ضرورت کی اس گھڑی میں پاکستان کی مدد کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں پاکستانی حکام کی جانب سے زبردست کام کرنے پر انہیں سراہتا ہوں، چاہے سول یا عسکری، قومی یا علاقائی، سول سوسائٹی، فلاحی ادارے اور اقوام متحدہ کے ہمارے ساتھی جنہوں نے مذکورہ علاقوں تک رسائی کی اور جن اداروں نے اس مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ ضروریات بہت زیادہ ہیں، میں زور دیتا ہوں کہ پاکستان کو ہنگامی بنیاد پر بہت زیادہ مالی امداد کی ضرورت ہے، یہ صرف یک جہتی یا فراخ دلی کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ان چیزوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے، جو دوسروں نے پھیلایا ہوا ہے، فضلے کا جلاؤ ہمارے سیارے کو کھا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ جی20 ممالک آج گیسوں کے اخراج کے 80 فیصد ذمہ دار ہیں، ترقی یافتہ ممالک سب سے زیادہ اس کے حصہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں پاکستان میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امیر ممالک پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کے اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں تاکہ اس طرح کے بحرانوں پر سے بحالی ہو اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔

اس موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کا دورہ خوش آئند ہے اور اس دورے سے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے امداد کی کوششوں میں عالمی برادری کو متحرک کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے بھرپور مصروفیات کے باوجود پاکستان کا دورہ کرنے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

سندھ میں سیلاب سے 24 اضلاع شدید متاثر، 537 افراد جاں بحق ہوئے، وزیراعلیٰ سندھ

قبل ازیں وزیر اعلٰی سندھ سید مراد علی شاہ نے بریفنگ دیتےہوئے بتایا کہ اس سال سندھ میں 1185 ملی میٹر بارشیں ہوئی ہیں، سندھ میں سیلاب اور بارشوں سے537 افراد اپنی جانیں گنوا چکےہیں، 2010 کے سیلاب میں صرف سندھ کے 6 اضلاع متاثر ہوئے تھے لیکن اس بار سندھ کے 24 اضلاع شدیدمتاثرہوئےہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب کی اب بھی تباہ کاریاں جاری ہیں لاکھوں کی تعداد میں مکانات گرے ہیں، مواصلات، زراعت، لائیواسٹاک ،صحت ،تعلیم کے شعبوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں سڑکوں، ریلوے ٹریکس اور شہروں میں اب بھی پانی جمع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی ہمیں متاثرین کے لیے 30 لاکھ خیموں کی ضرورت ہے مچھروں کی بہتات ہوگئی ہے، مچھر دانیوں کی ضرورت ہے مویشیوں کی خوراک چارے کی کمی ہے، اس کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سیلاب سے متاثرہ تاریخی ورثوں کی بحالی کے لیے یونیسکو کا ساڑھے 3لاکھ ڈالر امداد کا اعلان

وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ سندھ میں صرف روڈ نیٹ ورک کی بحالی کے لیے ابتدائی طور پر 50 ارب کی ضرورت ہے اسکولوں اور اسپتالوں جن کو نقصان پہنچا ہے ان کی بحالی کےلیے 5 ارب روپے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لیے متاثرین کی بحالی بہت بڑاچیلنج ہے، صرف کراچی شہر کے انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے 10 ارب روپے کی ضرورت ہے، ہمیں اس وقت اپنے متاثرین کی بحالی کے لیے عالمی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو دی جانے والی بریفنگ کےموقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزرا اور قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد موجود تھی۔

واضح رہے کہ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ 2 روزہ دورے پر جمعرات کو پاکستان پہنچے تھے جہاں ان کے دورے کا مقصد سیلاب کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ملک کی مدد کے لیے عالمی دنیا سے امداد کی اپیل اور موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔

سندھ سے لوگ آگے آئیں اور متاثرین کی مدد کریں، آرمی چیف

دادو میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان میں جہاں سیلاب آیا ہے تقریباً ہر جگہ کا دورہ کیا اور سب سے زیادہ تباہی یہاں آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ منچھر اور ہمل جھیل آپس میں مل چکی ہے، جن کے درمیان فاصلہ تقریباً 100 کلومیٹر ہے، دیگر علاقوں میں ریسکیو کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے لیکن یہاں تاحال ریسکیو اور ریلیف کا کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ دادو شہر میں پانی کا بہت زور ہے، اس وقت پاکستان سے لوگ امداد دے رہے ہیں، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے کافی امداد آرہی ہے لیکن ہمیں توقع ہے اور ہمارے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ ان کے لیے آگے آئیں اور امداد دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر چیز پر عالم برادری کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے حالانکہ عالمی برادری نے اپنا کام شروع کیا ہے، ورلڈ فوڈ، یوایس ایڈ کے لوگ اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی آگئے ہیں لیکن وہ ایک محدود حد تک کرسکتے ہیں۔

آرمی چیف نے کہا کہ اپنے لوگوں کی ذمہ داری ہماری اپنی ہے، پہلے مرحلے میں ریسکیو اور ریلیف ہے اور بحالی کے مرحلے میں بڑا چیلنج ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دریا کے ذریعے آنے والے سیلاب کے لیے ہم ہمیشہ تیار رہے ہیں لیکن جن علاقوں میں پورے سال میں 50 ملی میٹر بارش ہوتی ہو وہاں ایک ہفتے میں 1700 ملی میٹر بارش ہوجائے تو اس کے لیے ہماری تیاری نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے 2017 میں ہالینڈ کی ایک کمپنی سے تحقیق کروائی تھی، جس میں دریا سے آنے والے سیلاب سے متعلق اسٹڈی کی گئی تھی لیکن اس پر ہمیں دوبارہ کام کرنا پڑے گا کیونکہ اس میں نئی چیز آئی ہے اور یہ رہے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ویسٹ آف انڈس کا ہم نے علاج کیسے کرنا ہے، چیک ڈیمز بنانے ہیں، ڈرینیج سسٹم بنانا ہے ورنہ یہاں لوگ بار بار تنگ ہوتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس پر ہم نے کام شروع کردیا ہے، آرمی انجینئرز کو ذمہ داری سونپ دی ہے اور ابتدائی تحقیق کرلی ہے اور اگلے ہفتے ہم وزیراعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ کو بریفنگ دیں گے تاکہ اس پر ہمارا کام شروع ہو، اس حوالے سے بین الاقوامی ماہرین آرہے ہیں ان کی مدد بھی لیں گے۔

‘پری فیب ویلیج بنائیں گے’

آرمی چیف نے کہا کہ متاثرین کے لیے طویل مدتی منصوبے سوچ رہے ہیں اور ایک منصوبہ ذہن میں آیا ہے کہ ہم ایک پری فیب ویلیج بناتے ہیں، اس کی خوبی یہ ہے وہ چند دنوں میں بن جاتا ہے اور 50 سے 100 سال تک رہتا ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم 50 سے 100 گھروں کا ویلیج بنائیں گے، جگہ کا انتخاب کریں گے جو بلوچستان یا سندھ میں ہوگی، دو بیڈ روم، ایک کیچن اور باتھ روم کا گھر 5 لاکھ روپے میں بن جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی اونچے مقام پر بنائیں گے تو وہ لوگ محفوظ رہیں گے اور ان کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا۔

سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 1396 ہوگئی

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک بھر میں جون سے اب تک سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار 396 اور زخمیوں کی تعداد 12 ہزات تک پہنچ گئی ہے۔

نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی) نے روزانہ کی بنیاد پر جاری اعداد وشمار میں بتایا کہ اس دوران 6 ہزار 579 کلومیٹر سڑکیں، 246 پل اور 173 شاپس تباہ ہوئیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بڑی تعداد میں انسانی اور انفراسٹرکچر کا نقصان ہواجہاں پاک فوج اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

این ایف آر سی سی نے کشمیر، بالائی خیبرپختونخوا، اسلام آباد، پوٹھوہار ریجن اور گلگت بلتستان میں گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیش گوئی بھی کی۔

ملک کے دیگر علاقوں کے بارے میں بتایا گیا کہ موسم گرم رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں