دہشت گردی کا مقدمہ: عمران خان اسلام آباد پولیس کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2022
عمران خان دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کے لیے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے —فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کے لیے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے —فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اسلام آباد پولیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے اپنے خلاف درج دہشت گردی کے مقدمے میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پیش ہوگئے۔

دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کے لیے عمران خان جے آئی ٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے ایس ایس پی انویسٹی گیشن آفس پہنچے۔

دوپہر 2 بجے کے قریب عمران خان تین مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کی ہدایت پر سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کے دفتر پہنچے اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

اس موقع پر سابق وزیر اعظم کو جے آئی ٹی کی جانب سے ایک سوالنامہ دیا گیا، عمران خان تقریباً 20 منٹ تک ایس ایس پی کے دفتر میں موجود رہے جب کہ اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے ہمراہ پارٹی کے سینئر رہنما بھی موجود تھے۔

پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ آج پہلی مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا ہوں، اس موقع پر میں قوم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ 26 سالہ سیاست میں ہمیشہ ہر اقدام آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کیا ہے اور آج پیشی کا مقصد بھی اسی مقصد اور سلسلے میں تھا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میں باوجود اس کے یہ مقدمہ ساری دنیا کے سامنے ایک مذاق ہے، پوری دنیا مجھے جانتی ہے، اس لیے پوری دنیا میں ہیڈ لائنز لگی ہیں کہ عمران خان پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا، دنیا دہشت گردی کی تعریف بھی جانتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کا مقدمہ: عمران خان کو جے آئی ٹی میں پیشی کیلئے ایک اور نوٹس

انہوں نے کہا کہ اگر آپ کسی حکومتی عہدیدار کو یہ کہیں کہ میں تمہارے خلاف کسٹوڈیل ٹارچر کرنے پر قانونی کارروائی کروں گا، شہباز گل کو اغوا کرکے برہنہ کرنے کے بعد 2 روز تک تشدد کیا گیا، جنسی تشدد کیا گیا، اس پر ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم قانونی کارروائی کریں گے، اس پر آپ دہشت گردی کی دفعات لگادیں تو اس پر ملک کا مذاق اڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے سے متعلق آج جے آئی ٹی کے سامنے سوالات کے جواب دے دیے ہیں، میرا اس حکومت کو پیغام ہے کہ جتنا مجھے اور میری جماعت کو دیوار سے لگائیں گے، ہم اتنا ہی تیار ہو رہے ہیں اور اسی مہینے تیار ہو رہے ہیں، آپ کے سامنے اب عوام کا سمندر نکلنے لگا ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے میں اس لیے چپ کرکے بیٹھا رہا کیونکہ ملک کے معاشی حالات خراب تھے، پھر سیلاب آگیا، ہم نے سوچا پرامن طور اپنا احتجاج کرتے ہیں، پھر ہم چینلز پر ٹیلی تھون کے ذریعے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پیسے جمع کرنے لگے تو حکومت نے چینلز پر پابندی لگادی، کیبل بند کرا دی، اس کے باجود ہم نے صرف 5 گھنٹے میں 10 ارب روپے جمع کیے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ یہ حکمراں کہتے تھے کہ سیلاب پر سیاست نہیں کرنی لیکن صرف اس خوف سے کہ لوگ ہمیں پیسے بہت دے دیں گے، کیونکہ ان چوروں کو تو کوئی پیسا نہیں ملتا، اس لیے انہوں نے کوریج پر پابندی لگادی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سینیٹر سیف اللہ نیازی کے گھر پر کل ایف آئی اے گھس گئی، ان پر کئی کیسز بنادیے گئے ہیں، جو لوگ ہمیں فنڈنگ کرتے ہیں انہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے، ان کو ایف آئی اے کے نوٹسز دیے جارہے ہیں۔

'کال دوں گا تو حکومت برداشت نہیں کر سکے گی'

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ یہ حکمراں کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا، سوشل میڈیا پر ہماری کوریج بند کریں، انہوں نے یوٹیوب بند کردی، ان اینکرز پر جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ مجھے سپورٹ کرتے ہیں ان پر ایف آئی آر درج کی گئیں، دو اینکرز بیرون ملک چلے گئے۔

مزید پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو شامل تفتیش ہونےکا حکم

ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب سیلاب آیا ہوا ہے، ہمیں کہہ رہے ہیں کہ سیلاب کی وجہ سے سیاست نہ کریں، دوسری جانب ہماری پارٹی کو کچلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، میرا حکومت کو چیلنج ہے کہ جس دن میں نے کال دی اس دن آپ یہ برداشت نہیں کر سکیں گے، کیونکہ لوگ پہلے ہی انہیں گالیاں دے رہے ہیں، عوام میں یہ ویسے ہی نہیں جاسکتے۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکمراں پبلک میں جاتے ہیں تو لوگ انہیں چور کہتے ہیں، سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنما چھپے ہوئے ہیں، سندھ کے لوگ تکلیف میں ہیں، کوئی رکن اسمبلی بھی عوام میں چلا جائے تو لوگ ان کے ساتھ دیکھیں کیا کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو پتا ہے کہ انہوں نے چوری کرکے پیسا باہر بھیج دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکمراں جو بھی کریں گے، میں قوم کے سامنے کہہ رہا ہوں کہ جب میں کال دوں گا تو یہ امپورٹڈ حکومت جو باہر کی سازش کرکے ہم پر مسلط کی گئی ہے، وہ یہ برداشت نہیں کرسکے گی۔

'انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہونے والی ہیں'

حکومت سے بات چیت اور ڈائیلاگ کے امکانات سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ صرف جلد از جلد صاف و شفاف الیکشن سے متعلق بات ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے کہ پاکستان، سری لنکا جیسے حالات کی جانب جارہا ہے، معیشت اس حکومت سے سنبھالی نہیں جارہی، آئی ایم ایف پروگرام کے باوجود روپیہ گرتا جارہا ہے، مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کہہ رہے ہیں کہ ان سے معیشت نہیں سنبھالی جارہی اور پاکستان، سری لنکا کی طرف جارہا ہے، اس صورتحال کا صرف ایک حل ہے اور وہ صاف اور شفاف الیکشن ہیں۔

صحافی کی جانب سے اس سوال پر کہ کال دینے میں اتنا وقت کیوں لگا رہے ہیں، اگر معیشت تباہ ہو رہی ہے تو کال دے دیں جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ انتظار کی گھڑیاں اب ختم ہونے والی ہیں، جب میں کال دوں گا تو امپورٹڈ حکومت برداشت نہیں کر سکے گی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل عمران خان کو طلبی کے 3 نوٹسز جاری کیے گئے تھے، تاہم وہ جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے، انہوں نے وکیل کے ذریعے اپنا تحریری جواب جمع کروایا تھا۔

6 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں پولیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان جمع کرانے سے روکتے ہوئے عمران خان کو دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی اور اسی دوران وکلا کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کے خلاف اخراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔

عمران خان نے 25 اگست کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض یکم ستمبر تک عبوری ضمانت منظور حاصل کی جس کے بعد یکم ستمبر کو عبوری ضمانت میں ایک لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض 12 ستمبر تک توسیع کی گئی جب کہ 12 ستمبر کی ساعت میں عدالت نے ان کی ضماعت میں 22 ستمبر تک توسیع کردی تھی۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

وزیراعلیٰ پنجاب تونسہ کو ضلع بنانے کا اعلان کریں، عمران خان

عمران خان کا تونسہ شریف میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 5 گھنٹے میں 10 ارب روپے پاکستانیوں نے مجھے اکٹھا کرکے دیے، اس کا مطلب سیلاب متاثرین کی ساری قوم کو فکر ہے، مجھے افسوس ہے کہ امپورٹڈ حکومت نے خوفزدہ ہو کر کیبل ٹی وی پر ٹیلی تھون کی نشریات بند کردیں۔

عمران خان نے سیلاب کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے اوپر یہ بہت بڑا امتحان ہے، پوری قوم کو اکٹھا ہو کر مقابلہ کرنا پڑے گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی ریلیف کے بعد دوسرے مرحلے میں ان کے گھر ہم نے ٹھیک کرنے ہیں، ہم پوری کوشش کریں گے کہ متاثرین کی زندگی آسان کریں۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے نہری نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، اس میں وفاقی حکومت کو بھی پوری مدد کرنا ہوگی، کسان بری طرح متاثر ہیں، اس سسٹم کی فوری طور پر بحالی کی جائے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ دریائے سندھ کے ساتھ رائٹ بینک آؤٹ فال کینال ہے، یہ نہر 20 سال سے بن رہی ہے، اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ کوہ سلیمان سے جب پانی آتا ہے تو اس کو سمندر کی طرف لے جائے، ہمارے دور میں 2020 میں اس نہر پر واپڈا نے سیہون تک اپنا کام مکمل کرلیا تھا، اس سے آگے کام سندھ حکومت نے کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر رائٹ بینک آؤٹ فال کینال کام کررہی ہوتی تو سندھ میں اتنی تباہی نہ ہوتی، سندھ میں پانی کھڑا ہو گیا ہے وہ اس وقت تک نہیں جائے گا جب تک نکاسی کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ نہر کو سہیون سے آگے تک لے کر جائیں تاکہ آئندہ اس طرح کے عذاب کا سندھ کے لوگوں کو سامنا نہ کرنا پڑے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سے درخواست کروں گا کہ فوری طور پر تونسہ کو ڈسٹرکٹ بنانے کا اعلان کریں، عثمان بزدار کی حکومت نے اس پر کام مکمل کر لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں