دہشتگردی کا مقدمہ: اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو شامل تفتیش ہونےکا حکم

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2022
طیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تفتیش مکمل ہوئے بغیر یہ عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
طیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تفتیش مکمل ہوئے بغیر یہ عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چالان جمع کرانے سے روکتے ہوئے عمران خان کو دہشت گردی کے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت 21 اگست کو اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جب کہ عدالت نے یکم ستمبر کو انہیں ضمانت دیتے ہوئے 12 ستمبر تک گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں بینچ نے عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

دوران سماعت عمران خان کے وکلا بیرسٹر سلمان صفدر اور ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون بھی روسٹرم پر آگئے۔

دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پولیس نے مقدمے میں مزید نئی دفعات شامل کرلیں، دفعات شامل کرنے پر عدالت کے جج بھی بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یونیفارم پہننے والو کو دھمکیاں دی گئیں، اگر ہم ان کو عزت نہیں دیں گے تو کون دے گا، اگر ان سے غلطی بھی ہو جائے تو یہ عدالت ان کو عزت دے گی، اگر یہ عدالت ان کو عزت نہیں دے گی تو باہر بھی کوئی نہیں دے گا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پولیس نے عمران خان کے خلاف چالان جمع کرایا؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان مقدمے میں شامل تفتیش ہی نہیں ہو رہے، عمران خان تک پولیس کو رسائی نہیں دی جارہی۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یونیفارم میں کھڑا پولیس اہلکار ریاست ہے، دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا تو تفتیش میں شامل ہوئے بغیر آپ مقدمہ خارج کی درخواست لے آئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک قانون ہے، اس پر آپ نے عمل کرنا ہے، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بالکل ہمیں شامل تفتیش ہونا ہے، ابھی ابتدائی مرحلہ ہے، عمران خان کے خلاف مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔

وکیل نے عمران خان کے شامل تفتیش ہونے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہم شامل تفتیش ہوں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ تفتیشی جاتا ہے، اس کو اندر ہی نہیں جانے دیا جاتا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، اگر تفتیشی سے تعاون نہیں کیا جارہا تو آپ رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں، عدالت امید کرتی ہے اگر غلط دفعہ لگی ہے تو عدالت کا آگاہ کریں گے۔

مزید پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تفتیش مکمل ہوئے بغیر یہ عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی، اگر تفتیشی کو عمران خان تک رسائی نہ ملی تو ہم اخراج مقدمہ کا کیس نہیں سنیں گے۔

عمران خان کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ تفتیش مکمل ہونے تک تفتیشی کو عمران خان کے خلاف تادیبی کارروائی سے روکا جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس کیس میں جے آئی ٹی بنی ہوئی ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس میں جے آئی ٹی کی کیا ضرورت ہے کہی پر حملہ تو نہیں ہوا، صرف تقریر ہی ہوئی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ عمران خان کی تقریر کے تانے بانے بہت پیچھے تک ہیں۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے عمران خان کے خلاف اخراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کی ہدایت کردی۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا بیان قابل مواخذہ ہے، مقدمہ درج کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں، رانا ثنااللہ

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں