سوات: دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 8 ہوگئی

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2022
سوات کے علاقے کبل میں گزشتہ روز دھماکا ہوا تھا— فوٹو: فضل خالق
سوات کے علاقے کبل میں گزشتہ روز دھماکا ہوا تھا— فوٹو: فضل خالق
سوات کے علاقے کبل میں گزشتہ روز دھماکا ہوا تھا— فوٹو: سراج الدین
سوات کے علاقے کبل میں گزشتہ روز دھماکا ہوا تھا— فوٹو: سراج الدین

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں گزشتہ روز ہونے والے بم دھماکے میں زخمی ہونے والے مزید 2 افراد دم توڑ گئے، جس کے بعد جاں بحق افراد کی تعداد 8 ہوگئی۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے پی آر او معین فیاض اور ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی نے بتایا دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد بڑھ کر 8 ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: سوات اور کوہاٹ میں دھماکے، امن کمیٹی کے رکن اور پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق

اس سے قبل ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سوات زاہد مروت نے بتایا تھا کہ گزشتہ روز کے دھماکے کے مزید 4 زخمی ہسپتال میں دم توڑ گئے اور جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 10 ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے واقعے کی تحقیقات بھی شروع کردی ہے۔

ڈی پی او نے بتایا کہ واقعے کے حوالے سے تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تاہم تفتیش جاری ہے۔

سوات ھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی نماز جنازہ بھی ادا کردی گئی ہے اور آبائی علاقوں میں تدفین کی گئی۔

دھماکے میں جاں بحق دو پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کردی گئی جہاں سیاست دانوں، حکومتی عہدیداروں اور مقامی افراد نے شرکت کی، جس کے بعد لاشیں تدفین کے لیے لواحقین کے حوالے کردی گئیں۔

امن کمیٹی کے رکن ادریس خان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں باڑہ بانڈا میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

دھماکے میں جاں بحق افراد کی نماز جنازہ کے موقع پر علاقے میں سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سوات: تبلیغی مرکز میں دھماکے سے 21 افراد ہلاک

خیال رہے کہ گزشتہ روز وادی سوات کی تحصیل کبل میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان، 2 پولیس گارڈز رامیل اور توحید اور ایک بچہ کوٹا کے سے بنڈائی گاؤں جا رہے تھے کہ کچی سڑک پر نصب بم پھٹ گیا، جس سے چاروں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔

دھماکے میں 2 راہگیر بھی جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں سے ایک کی شناخت ثنااللہ کے نام سے ہوئی تھی۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ادریس خان تقریباً 13 برس سے ان کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

ادریس خان نے 2007 میں سوات کے وسیع علاقے پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کے خلاف مزاحمت کو متحرک کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، انہیں ان کی بہادری کے اعتراف میں گاؤں کی امن کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا اور وہ ماضی میں متعدد جان لیوا حملوں سے بال بال محفوظ رہے تھے۔

کے پی حکومت طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں کر رہی، شوکت یوسفزئی

صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے بیان میں کہا کہ حکومت خیبر پختونخوا، طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکراتی عمل میں صوبائی حکومت کی کوئی نمائندگی بھی نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت افغان حکومت سے مذاکرات کر رہی ہے۔

شوکت یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے اثرات ہمارے ملک پر بھی پڑے ہیں، افغان حکومت کچھ لوگوں کو مجبور کر رہی ہے کہ پاکستان واپس جائے تو اثرات نظر آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ قیام امن کے لیے سیکیورٹی فورسز کی بے شمار قربانیاں ہیں۔

سوات میں احتجاج

سوات میں سول سوسائٹی کے اراکین کی بڑی تعداد جمع ہوئی اور گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کے خلاف احتجاج کیا اور دہشت گردی کی نئی لہر کی مذمت کی۔

مینگورہ کے نشاط چوک پر مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جس میں امن کے حق میں نعرے درج تھے اور انہوں نے سوات اور مالاکنڈ میں امن کے لیے نعرے لگائے۔

مظاہرین نے امن برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا—فوٹو: فضل خالق
مظاہرین نے امن برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا—فوٹو: فضل خالق

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات کے عوام 2007 سے 2009 تک دہشت گردی کا شکار رہے اور کسی صورت اپنی سرزمین پر انتہاپسندوں کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور محنت سے حاصل کیا گیا امن سبوتاژ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے اور ریاست مخالف عناصر کو ہمارا امن چرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عہدیداروں کی موجودگی میں انتہاپسند سوات میں کیسے داخل ہوئے۔

مظاہرین نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انتہاپسند سوات میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں کیونکہ ہماری سرحد افغانستان سے نہیں ملتی، اس طرح کی صورت حال میں دہشت گردوں کی موجودگی نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس پر سوال بھی اٹھتا ہے۔

سوات ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے بھی دہشت گردی کی حالیہ لہر کی مذمت کرتے ہوئے ایڈووکیٹ محمد مشتاق خان کی زیر صدارت ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہوا۔

وکلا کا کہنا تھا کہ ہم دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور امن و امان کی کمزور صورت حال کی مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی اہم شخصیات کو بھتے کی پرچیاں موصول ہوئی اور انہیں رقم ادا کرنے کے لیے دھمکی آمیز فون کیے گئے۔

وکلا نے کہا کہ ریاستی ادارے شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ مکمل امن اور اپنے فرائض کی انجام دہی یقینی بنائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں