مسلسل 10ویں روز روپے کی قدر میں کمی، انٹر بینک میں ڈالر 235 روپے 88 پیسے پر پہنچ گیا

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2022
ظفر پراچا کے مطابق اس وقت افغانستان اور ایران سے ڈالر اور سامان کی اسمگلنگ عروج پر ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ظفر پراچا کے مطابق اس وقت افغانستان اور ایران سے ڈالر اور سامان کی اسمگلنگ عروج پر ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ آج بھی جاری رہا اور انٹربینک میں صبح کاروبار کے دوران ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر میں 1.68 روپے کی گراوٹ دیکھی گئی جبکہ دن کے اختتام پر ڈالر 235 روپے 88 پیسے پر پہنچ گیا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کے بعد ڈالر دن کے اختتام پر 235 روپے 88 پیسے کی حد تک پہنچ گیا اور روپیہ 0.66 فیصد گرگیا جبکہ گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 234 روپے 32 پیسے رہی تھی۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے ابتدائی اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ مقامی کرنسی صبح 11:35 بجے 0.71 فیصد گرنے کے بعد 236 روپے فی ڈالر میں مل رہی تھی جبکہ گزشتہ روز ڈالر 234.32 روپے پر بند ہوا تھا۔

اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ روپے پر بہت زیادہ دباؤ ہے کیونکہ دوست ممالک جنہوں نے پیسے دینے کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے رجحان بدل گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روپے کی گراوٹ کا سلسلہ تھم نہ سکا، ڈالر کی قیمت 234 روپے 32 پیسے تک پہنچ گئی

ان کا کہنا تھا اس وقت افغانستان اور ایران سے ڈالر اور سامان کی اسمگلنگ عروج پر ہے۔

ظفر پراچا نے اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے غیر ضروری اور لگژری اشیا کی درآمد پر بھاری ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کے فیصلے کو قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں دباؤ پڑا ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 'تقریباً ختم ہو چکا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیاں جو یومیہ ڈھائی سے 3 کروڑ کے درمیان ڈالر فروخت کرتی ہیں وہ اب اتنا فروخت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

البتہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے سے زیادہ نہ بڑھے لیکن انٹربینک اور گرے مارکیٹ میں نرخ بڑھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈالر ایک بار پھر مہنگا، انٹربینک میں روپے کی قدر میں ایک روپے 64 پیسے کی کمی

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر مزید قواعد و ضوابط نافذ کیے ہیں جس کے بعد لوگ ایکسچینج کمپنیوں میں نہیں آرہے بلکہ اس کے بجائے گرے مارکیٹ جارہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ڈالر باضابطہ کے بجائے بے ضابطہ طور پر فروخت کیا جارہا ہے اور پشاور میں 248 روپے جبکہ افغانستان میں 250 سے 252 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔

ظفر پراچا نے حکومت پر 'توجہ نہ دینے اور اخراجات کو کنٹرول نہ کرنے' پر بھی تنقید کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو مطلوبہ امداد نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے 'اعتماد کے فقدان' کو قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈالر مزید مہنگا، انٹربینک میں روپے کی قدر میں 2 روپے 10پیسے کی کمی

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے مارکیٹ کے رجحانات بدل گئے ہیں اور دیوالیہ پن کے بارے میں بات چیت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔

دوسری جانب ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل نے کہا کہ جب تک پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم نہیں کیا جاتا یا دوست ممالک سے رقوم موصول نہیں ہوتیں اس وقت تک روپیہ دباؤ میں رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی حالات کو دیکھتے ہوئے، تجارتی بنیادوں پر اور یورو بانڈز کے ذریعے فنڈز کا حصول ممکن نہیں ہے۔

خیال رہے کہ یہ مسلسل 10واں سیشن ہے جب روپیہ گرا ہے، عارف حبیب لمیٹڈ کے مطابق گزشتہ 9 سیشنز کے دوران روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 15.72 روپے یا 6.91 فیصد کمی واقع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں