وزیر اعظم کی نواز شریف سے ملاقات، پنجاب حکومت کی تبدیلی، اہم تعیناتیوں پر تبادلہ خیال

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2022
شریف برادران نے حکومت کی مدت پوری کرنے پر اتفاق کیا —ٹوئٹر/مریم نواز
شریف برادران نے حکومت کی مدت پوری کرنے پر اتفاق کیا —ٹوئٹر/مریم نواز

اگلے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق بڑھتی قیاس آرائیوں کے پیش نظر وزیر دفاع خواجہ آصف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تعیناتی کو کسی سیاسی تنازع کا حصہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اس سے ادارے کو نقصان پہنچتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خواجہ آصف، وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ لندن میں ہیں جو برطانوی حکومت کی دعوت پر آج ملکہ برطانیہ کی تدفین کی سرکاری تقریب میں شرکت کے لیے وہاں موجود ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ملاقات کی اور دونوں نے عام انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ پنجاب میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی مخلوط حکومت کی ممکنہ تبدیلی سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔

شریف برادران نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دباؤ کے باوجود پی ڈی ایم حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور اگلے عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں۔

ملاقات میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی زیر قیادت پنجاب حکومت کو ہٹانے پر غور کیا گیا اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے حمزہ شہباز سمیت دیگر امیدواروں کے نام پر غور کیا گیا، اس دوران نومبر میں ہونے والی اہم تعیناتی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

اسٹین ہاپ ہاؤس میں حسین نواز کے دفتر میں شریف خاندان کی 3 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی، شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد لندن میں شریف برادران کی اس دوسری ملاقات میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز نے بھی شرکت کی۔

اطلاعات کے مطابق خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کا طریقہ کار وہی ہوگا جو برسوں سے جاری ہے، نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہر 3 برس بعد ہوتی ہے جس پر قوم کو یا کسی شخص کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مرحلہ (ریٹائرمنٹ) سے 2 یا 3 ہفتے قبل شروع ہوگا۔

مزید پڑھیں: اگر مارکیٹیں اوقات درست کرلیں تو 3500 میگاواٹ بجلی بچ سکتی ہے، خواجہ آصف

انہوں نے کہا کہ میں یہ لازمی کہوں گا کہ آرمی چیف کی وفاداری اپنے وطن سے ہے جو کسی سیاستدان کے ماتحت نہیں اور دوسری بات یہ کہ ان کی اپنے ادارے کے ساتھ بھی وفاداری ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ آرمی چیف ہی وہ شخص ہیں جو 7 لاکھ فوجی افسران کو کمانڈ کرتے ہیں جو ان کی ایک پکار پر جان دینے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں، اس پوزیشن اور شخصیت کو کسی تنازع یعنی سیاسی تنازع کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔

خواجہ آصف کا بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر قیاس آرائیاں چل رہی ہیں، سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ حکمراں اتحاد بدعنوانی کے مقدمات سے بھاگنے کے لیے اپنی پسند کا آرمی چیف تعینات کرنا چاہتا ہے۔

حال ہی میں عمران خان نے آرمی چیف کے تقرر کو نئی حکومت کے آنے تک مؤخر کرنے کی تجویز دی تھی، عمران خان کے اس بیان کو حکومتی وزرا، فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

وزیر دفاع نے صحافیوں کو مزید بتایا کہ وہ نواز شریف کی جلد وطن واپسی کو ترجیح دیتے ہیں، مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے ساتھ پاکستان میں جو ناانصافیاں کی گئی ہیں، اس پر انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، خواجہ آصف

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت انتخابات سے بھاگ نہیں رہی مگر ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ہوں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ جب عمران خان کے پاس پارلیمنٹ میں ایک نشست ہوتی تھی تو بھی وہ اسی طرح کے بیانات دیتے تھے۔

آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق وزیر اعظم کی تجویز پر صدر مملکت، مملکت کے نئے سربراہان کو تعینات کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کی فوج کو اپنا چیف خود منتخب کرنے کی تجویز پر پی ٹی آئی کی جانب سےتنقید

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نئے آرمی چیف پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہے اور یہ ایسی رسم ہے کہ ہر تین سال بعد ہوتی ہے جو اب نومبر میں ہوگی مگر اس پر پریشانی صرف عمران خان کو ہے۔

تاہم، ڈان نے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ یہ عمل جس انداز میں چلتا ہے اس کی قانونی کتابوں میں واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی، نہ ہی غور کرنے کے لیے کوئی خاص معیار مقرر کیا گیا ہے، سوائے اس مبہم شرط کے کہ فوج کی قیادت کے لیے منتخب جنرل نے ایک کور کی کمانڈ کی ہو۔

جنرل ہیڈکوارٹرز 4 سے 5 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیرِ اعظم کے پاس بھیجتا ہے تاکہ وہ جس افسر کو اس منصب کے لیے بہتر سمجھتے ہیں، انہیں منتخب کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں