عمران خان کےخلاف اب تک کارروائی نہ ہونے پر اپنی حکومت سے شاکی ہوں، فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2022
مولانا فضل الرحمٰن لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عمران خان انٹرنیشنل اور امپورٹڈ چور ہیں لہٰذا ان کا محاسبہ ہونا چاہیے، لیکن میں خود اپنی حکومت سے شاکی ہوں کہ ابھی تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوسکی، آخر وہ ایسے مجرم کو اتنی ڈھیل کیوں دے رہے ہیں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے آرمی چیف کو متنازع بنانے کی کوشش کی اور اگر بالفرض کوئی ملاقات ہوئی بھی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: تمام سیاسی جماعتیں متعصبانہ سوچ ترک کر کے مل کر فیصلے کریں، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی فوج، الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت ہر ادارے پر حملہ کر رہے ہیں، کس ادارے کو انہوں نے معاف کیا ہے، اگر ادارہ ان کے حق میں چلتا ہے اور ان کے حق میں فیصلے دیتا ہے تو پھر وہ بڑا انصاف والا ادارہ ہے، اگر ادارہ ان کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو وہ غدار بھی ہوجاتے ہیں اور نجانے وہ کن کن القابات سے نوازتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ عمران خان ختم ہوچکا ہے، اس کی سیاست نمٹ چکی ہے، نہ ہم ان سے مرعوب ہیں، نہ ان کو ہم یہ حق دینا چاہتے ہیں کہ وہ آرمی چیف کے تقرر میں کسی قسم کی مداخلت کریں، آئین کے تحت یہ جس کی ذمہ داری ہے وہی ادا کرے گا، میرٹ کی بنیاد پر ادا کرے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عمران خان حکومت سے پوچھنے والے ہوتے کون ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر کس نے کرنا ہے، کیا یہاں کوئی نظام نہیں ہے، کیا یہ کوئی ملک اور ریاست نہیں ہے، ہم انہیں واضح طور پر بتا دینا چاہتے ہیں کہ تم لاکھ چیخو، لاکھ چلاؤ اور تڑپو، جو ہوگا آئین کے مطابق ہوگا، وزیر اعظم کا اختیار ہے تو وہی فیصلہ کرے گا، پارلیمنٹ، عدالت، الیکشن کمیشن کا اختیار ہے تو وہ فیصلے کرتے جائیں گے اور آپ کی چیخ و پکار ان پر اثر انداز نہیں ہوسکے گی۔

پنجاب میں مریم اورنگزیب اور جاوید لطیف کے خلاف درج مقدمات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت خود کمزور ہے اور شاید وہ پلٹ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘مسٹرایکس اور مسٹر وائی’ کو واپس دھمکیاں دو یہ ڈرانے والے کون ہوتےہیں، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان انٹرنیشنل اور امپورٹڈ چور ہیں لہٰذا ان کا محاسبہ ہونا چاہیے لیکن میں خود اپنی حکومت سے شاکی ہوں کہ ابھی تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکی، وہ ایسے مجرم کو اتنی ڈھیل کیوں دے رہے ہیں کہ جس نے پاکستان کے شریف سیاستدانوں کو ذلیل و رسوا کیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی، نواز شریف کو کئی بار اقتدار سے بے دخل کیا گیا، شہباز شریف اور ان کے خاندان کو جیل میں ڈالا گیا تو اقوام متحدہ کو کوئی احساس نہیں ہوا لیکن جب ان کے خلاف کارروائی ہوئی تو ان کو تشویش کیوں ہوگئی، تو یہ کس کا نمائندہ ہے اس کی حقیقتیں سامنے آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان آزادی کے نام پر عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں لیکن اس قسم کے عناصر سے ہم قوم کو آزادی دلائیں گے اور ان کے خلاف جنگ لڑیں گے۔

'ٹرانس جینڈر ایکٹ میں جو کچھ سامنے آرہا ہے، وہ قرآن و سنت سے بغاوت ہے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے جو کچھ سامنے آرہا ہے، وہ قرآن اور سنت سے بغاوت ہے، جے یو آئی (ف) ایک مستقل ترمیم تیار کر رہی ہے، اس کی جامع شکل ایوان میں پیش کی جائے گی۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ پرانی بات ہے، اس وقت ایک چیز منظور ہوئی، اس وقت انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی میں کچھ اراکین گئے، انہوں نے اس کو موضوع بنایا، اس میں ترامیم بھی کی ہیں، اس کی وجہ سے یہ معاملہ منظر عام پر ضرور آیا ہے لیکن یہ معاملہ آج کا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح بہت سے قوانین چوری چھپے بڑی خاموشی کے ساتھ اور ایسے وقت میں جب کورم بھی پورا نہ ہو، جب چھٹی کا دن یا جمعہ کا دن ہو، نجی رکن کے ذریعے سے یہ بل پیش کرلیے جاتے ہیں، اور پھر ان بل کو منظور کرلیا جاتا ہے، یہ قابل مذمت چیز ہے، جو کچھ سامنے آرہا ہے، وہ قرآن اور سنت سے بغاوت ہے، یہ صرف مخالفت نہیں ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس پر جمعیت علمائے اسلام (ف) ایک مستقل ترمیم تیار کر رہی ہے، اس کی جامع شکل ایوان میں پیش کی جائے گی، جو باقاعدہ ترمیم کی حیثیت ہوگی، جو ترامیم ہمارے دوستوں نے پیش کی ہیں، ہم نے اور ہمارے ماہرین نے اس کا مطالعہ کیا ہے، وہ ناکافی ہے، اگر بل ان ترامیم کے ساتھ پھر منظور ہوجاتا ہے تب بھی اس کی شرعی مخالفت میں فرق نہیں آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کا کوئی حق حاصل نہیں، اور یہ جو نیا سوال پیدا ہوا ہے، اس میں بھرپور طور پر قرآن و سنت کی ترجمانی کریں گے، اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانونی ترامیم کی طرف لے کر جائیں گے۔

خیال رہے کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کے حوالے سے پارلیمنٹ نے 4 برس قبل 2018 میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کی منظوری دی تھی۔

حال ہی میں اس ایکٹ کے حوالے سے ایک نئی بحث اُس وقت چھڑ گئی، جب 5 ستمبر کو سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں ٹرانس جینڈر ترمیمی بل 2021 پر غور کیا گیا تھا، جو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پیش کیا تھا۔

ٹرانسجینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کے حوالے سے ٹوئٹر پر صارفین نے #ٹرانسجینڈر بل نامنظور کا ٹرینڈ چلایا جو ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔

اس حوالے سے 18 ستمبر کو پاکستان شریعت کونسل کے لاہور میں منعقدہ اجلاس میں علما نے کہا تھا کہ ٹرانس جینڈر قانون آئین و شریعت کے خلاف ہے، اس قانون کو فی الفور منسوخ کیا جائے۔

یہ ایکٹ 2018 میں منظور ہوا تھا، اس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا تھا تاہم سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کی مخالفت کی تھی۔

بعد ازاں 15 نومبر 2021 کو سینیٹر مشتاق احمد نے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کا ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا تھا، جس پر 5 ستمبر کو غور کیا گیا تھا۔

سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس ترمیمی بل میں تجویز دی تھی کہ جنس تبدیلی کے لیے نادرا کے پاس جانے سے پہلے میڈیکل بورڈ فیصلہ کرے، ان کا کہنا تھا کہ 30 ہزار افراد جنس تبدیل کرنے کے لیے نادرا کو درخواست دے چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں