برطانیہ میں ایشیا کپ کے بعد سے ہندو مسلم کشیدگی برقرار، 47 افراد گرفتار

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2022
پولیس نے مزید انتشار کو روکنے کے لیے اتوار کو کم از کم 15 گرفتاریاں کیں — تصویر: بی بی سی
پولیس نے مزید انتشار کو روکنے کے لیے اتوار کو کم از کم 15 گرفتاریاں کیں — تصویر: بی بی سی

ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ کے بعد برطانیہ میں شروع ہونے والی کشیدگی تاحال برقرار ہے، برطانوی پولیس کے مطابق لیسٹر میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان کشیدگی کے دوران کم از کم 47 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

گزشتہ روز لیسٹر میں کشیدگی اس وقت پھیل گئی جب مسلم اور ہندو برادری کے نوجوان سڑکوں پر آکر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرنے لگے اور دونوں گروپوں نے الزام لگایا کہ ان کے اراکین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی ہے۔

ابتدائی طور پر پولیس نے کہا تھا کہ انہوں نے 'بغیر منصوبہ بندی کے ہونے والے احتجاج' کے بعد تشدد بھڑکانے پر دو افراد کو گرفتار کیا ہے، یہ 28 اگست کو ایشیا کپ کے دوران پاک بھارت میچ کے بعد پیش آئے واقعات کا ایک تسلسل ہے۔

اتوار کو شہر میں ایک اور احتجاج ہوا جس میں تقریباً 100 افراد شامل تھے، پیر کی صبح بی بی سی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے 'مزید انتشار کو روکنے' کے لیے اتوار کو کم از کم 15 گرفتاریاں کیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک۔بھارت میچ کو کئی ہفتے گزرنے کے باوجود برطانوی شہر میں کشیدگی برقرار

پولیس نے کہا کہ شہر کے مشرق میں بدامنی کے سلسلے میں مجموعی طور پر 47 افراد کو جرائم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، گرفتار افراد میں سے کچھ لیسٹر سے باہر کے تھے، جن میں برمنگھم کے کچھ لوگ بھی شامل تھے۔

دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد میں سے 8 کا تعلق لیسٹر شائر سے نہیں تھا بلکہ ان میں سے 5 برمنگھم سے آئے تھے اور 3 دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

لیسٹر کے میئر سر پیٹر سولسبی نے اس پیش رفت کو ایسی چیز قرار دیا جو جھڑپوں میں حصہ لینے کے لیے لیسٹر آنے والے افراد کا پہلا ثبوت تھا۔

گارجین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑنے والے دوسرے لوگ ہیں جو لیسٹر آرہے ہیں، یہ پریشان کن ہے کہ وہ ہمارے شہر میں ایسا کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، ہمیں اپنی کمیونٹیز کے درمیان اچھے تعلقات پر فخر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کا برصغیر کی سیاست سے زیادہ تعلق ہے۔

دوسری جانب پولیس نے کہا کہ ایک 20 سالہ شخص کو اس واقعے کے سلسلے میں گرفتاری کے بعد 10 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

'انتہا پسندی کا زہریلا برانڈ بھارت سے درآمد کیا گیا'

مزید پڑھیں: برطانیہ: سکھ عبادت گاہ پر قبضہ کرنے والے 55 افراد گرفتار

دوسری جانب برطانیہ کی مسلم کونسل نے 'لیسٹر میں انتہائی دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلم کمیونٹیز کو نشانہ بنانے' کی مذمت کی۔

ایک بیان میں کونسل نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گزشتہ کچھ روز کے دوران 'لیسٹر کی متنوع کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ مقامی طور پر پرتشدد دائیں بازو کی ہندوتوا انتہا پسندی کے بڑھنے کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے'۔

بیان میں کہا گیا کہ ہفتہ 17 ستمبر کو نقاب پوش مردوں کے گروپوں نے ہندوتوا قوم پرست بالادستی کے نعرے لگاتے ہوئے گرین لین روڈ کے ساتھ ساتھ جو کہ زیادہ تر مسلم اور سکھ آبادی والا علاقہ ہے ایک مارچ کی قیادت کی، جس کے بعد اشتعال انگیزی کا ایک سلسلہ چل نکلا۔

بیان میں اس طرح کی اشتعال انگیزی کو حالیہ مہینوں میں مساجد کے باہر نعرے لگانے، مسلمانوں پر ہجوم کے حملوں اور گھروں اور کاروبار میں توڑ پھوڑ کے طور پر بیان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ : سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج

بیان میں مزید کہا گیا کہ دونوں برادریوں کے نوجوانوں کے گروپ بعد میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، جس کے نتیجے میں دوبدو جھگڑے اور لڑائیاں ہوئیں۔

کونسل نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں نے یکجہتی کے بیانات شیئر کیے اور پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے، مقامی سطح پر قانون نافذ کرنے والے افسران کی مبینہ بے عملی پر تنقید کی جا رہی ہے، جو دیرینہ خدشات کے باوجود بھیڑ کو منتشر کرنے میں ناکام رہے۔

کونسل کا کہنا تھا کہ مقامی گروپوں کے درمیان کشیدگی اب بھی برقرار ہے اور مظاہرے جاری ہیں۔ اب تشویش انتہا پسندی کے اس زہریلے برانڈ کی ہے جو بھارت سے درآمد کی گئی ہے اور دوسرے شہروں میں پھیل رہی ہے۔

ہفتہ کی شام لیسٹر میں مسلمان اور ہندو کمیونٹیز اور پولیس کے درمیان جھڑپ دیکھی گئی جبکہ اس کے جواب میں اتوار کے روز ہندو کمیونٹی کے مردوں پر مشتمل بغیر منصوبہ بندی کے احتجاج کیا گیا۔

ادھر ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے لندن میں بھارت کے ہائی کمیشن نے 'لیسٹر میں بھارتی کمیونٹی کے خلاف ہونے والے تشدد اور ہندو مذہب کی عمارت اور علامتوں کی توڑ پھوڑ' کی سختی سے مذمت کی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 'ہم نے اس معاملے کو برطانیہ کے حکام کے ساتھ سختی سے اٹھایا ہے اور ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔'

تبصرے (0) بند ہیں