احتساب عدالت نے دائرہ اختیار نہ ہونے پر بینک فراڈ کا کیس نیب کو واپس بھجوادیا

24 ستمبر 2022
وکیل  نے کہا کہ بدعنوانی کے جرم کی تعریف 50 کروڑ روپے سے کم نقدی کے غبن پر ہوتی ہے—فائل فوٹو: نیب سائٹ
وکیل نے کہا کہ بدعنوانی کے جرم کی تعریف 50 کروڑ روپے سے کم نقدی کے غبن پر ہوتی ہے—فائل فوٹو: نیب سائٹ

پشاور کی ایک احتساب عدالت نے ایک نجی بینک کے ملازمین کے خلاف 2 کروڑ 83 لاکھ 90 ہزار روپے کا فراڈ ریفرنس قومی احتساب بیورو کو واپس بھجوادیا کیونکہ یہ متعلقہ قانون میں تبدیلی کے بعد دائرہ اختیار سے باہر ہوگیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج محمد یونس نے نیب کو ہدایت کی کہ معاملہ متعلقہ فورم پر کارروائی کے لیے اٹھایا جائے۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کے سیکشن 5 (او) کے تحت ملزمان، جو کہ نجی بینک البرکہ لمیٹڈ کے ملازم تھے، کی جانب سے 50 کروڑ روپے سے کم رقم کا غلط استعمال آرڈیننس میں کی گئی ترمیم کے مطابق کوئی جرم نہیں بنتا۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت نے رینٹل پاور پروجیکٹس کے 7 ریفرنس نیب کو واپس بھیج دیے

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ دائرہ اختیار کے مطابق نیب ایسے الزامات کی تحقیقات نہیں کر سکتا اور نہ ہی احتساب عدالتیں ان پر دائر ریفرنسز کی سماعت کر سکتی ہیں۔

جج نے یہ حکم نیب آرڈیننس میں ترامیم کی بنیاد پر بریت کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ کے-265 کے تحت ملزمان کی جانب سے دائر دو درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا۔

ریفرنس میں مرکزی ملزم بنک البرکہ لمیٹڈ کے سابق برانچ منیجر راحیل صابر جدون تھے جبکہ دیگر ملزمان میں منیجر (آپریشنز) محمد بلال، کریڈٹ منیجر رضا شاہ، کسٹمر سروس آفیسر شازیہ تنویر، آئی ٹی کوآرڈینیٹر فرحان احمد اور گریڈ 1 کے افسر شامل تھے اور عظمیٰ سعید ہاشمی نامی ملزمہ مفرور ہیں۔

جج نے ملزم کی بریت کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: نیب کا 50کروڑ روپے مالیت سے کم کے مقدمات کی تحقیقات نہ کرنے کا اعلان

تاہم انہوں نے کہا کہ 'انصاف کے وسیع تر مفاد' میں ریفرنس کو نیب کو واپس کیا جانا چاہیے تاکہ اسے متعلقہ فورم پر اٹھایا جا سکے جس سے عدالت اور کیس سے متعلقہ افراد کا وقت بچ سکے۔

وکیل دفاع ذوالفقار احمد نے استدلال کیا کہ قومی احتساب (دوسری ترمیم) ایکٹ 2022 کے ذریعے گزشتہ ماہ سیکشن 5(O) سمیت احتساب قانون میں ترامیم کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے جرم کی تعریف 50 کروڑ روپے سے کم نقدی کے غبن پر ہوتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ چونکہ درخواست گزاروں کے خلاف الزامات اب نیب آرڈیننس کے تحت جرم نہیں رہے وہ عدالت سے بری ہونے کے حقدار ہیں۔ خیال رہے کہ نیب نے 6 ملزمان کے خلاف 2014 میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم، حمزہ شہباز کےخلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس واپس چیئرمین نیب کو بھیجنے کا حکم

انسداد بدعنوانی کے ادارے نے الزام لگایا تھا کہ ملزمان نے ڈاکٹر عبدالجمیل خان کے نام پر پاکستانی روپے کا جعلی اکاؤنٹ کھولا اور جعلی فنڈ ٹرانسفر ایپلی کیشن (ایف ٹی اے) کا استعمال کرکے ڈاکٹر عبدالجمیل کے اصل امریکی ڈالر اکاؤنٹ سے دھوکہ دہی سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر منتقل کیے۔

بعد ازاں ملزمان نے مبینہ طور پر پے آرڈر جاری کرکے اور طارق خان کے نام سے جعلی اکاؤنٹ استعمال کرکے رقم نکال لی اور غبن کیا جو کہ مرکزی ملزم راحیل صابر کا بہنوئی تھا، اسی طرح ڈاکٹر عبدالجمیل کے بینک اکاؤنٹ سے جعلی ایف ٹی اے کے ذریعے ایک لاکھ 70 ہزار ڈالر بھی نکالے گئے۔

نیب نے الزام لگایا تھا کہ مرکزی ملزم راحیل صابر نے بطور آپریشن منیجر بینک البرکہ ایبٹ آباد، نے بینک کی مفرور عظمیٰ سعید کے ساتھ مل کر غیر قانونی طور پر نیئر سلطان جدون کے بینک اکاؤنٹ سے جعلی ایف ٹی اے کی مدد سے 9 ٹرانزیکشن کے ذریعے دھوکا دہی ایک کروڑ 14 لاکھ 22 ہزار روپے نکالے۔

بعدازاں مرکزی ملزم نے بعد میں نیئر سلطان جدون کے بینک اکاؤنٹ میں ایک کروڑ روپے واپس کر دیے لیکن بقیہ 14 لاکھ 24 ہزار روپے ان کے خلاف بقایا رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں