سارہ انعام قتل کیس: ایاز امیر کو بری کردیا گیا

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2022
اسلام آباد پولیس نے ایاز امیر کو بہو کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا تھا — فائل فوٹو: تنویر شہزاد، وائٹ اسٹار
اسلام آباد پولیس نے ایاز امیر کو بہو کے قتل کے مقدمے میں نامزد کیا تھا — فائل فوٹو: تنویر شہزاد، وائٹ اسٹار

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے کینیڈین خاتون کے قتل کیس میں ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باعث سینئر صحافی ایاز امیر کو مقدمے سے بری کردیا۔

سارہ انعام قتل کیس میں ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد سینئر صحافی ایاز امیر کو عدالت میں پیش کیا گیا، سینئر سول جج محمد عامر عزیز نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت پولیس کی جانب سے ایاز امیر کے 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، تفتیشی افسر نے کہا کہ رات کو تفتیش کی ہے ملزم شاہنواز کا ان سے رابطہ ہوا تھا، مقتولہ کے والد بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: ایاز امیر کے ریمانڈ میں مزید ایک روز کی توسیع

اس دوران ایاز امیر کی جانب سے ایڈووکیٹ بشارت اللہ، نثار اصغر اور ملک زعفران نے وکالت نامے جمع کرائے، وکیل بشارت اللہ نے مؤقف اپنایا کہ مقدمہ 23 ستمبر کو واقعے کے تین گھنٹے بعد مقدمہ درج ہوا، ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔

وکیل بشارت اللہ نے مزید دلائل دیے کہ وارنٹ گرفتاری پولیس نے حاصل کر کے ایاز امیر کو گرفتار کیا ہے، ایاز امیر کے خلاف پولیس کے پاس ثبوت کیا ہے، انگلینڈ سے اگر بندہ آرہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایاز امیر اپنے گھر چکوال میں تھے، انہوں نے پولیس کو اطلاع دی، 35 سال سے ایاز امیر کا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں، ہماری استدعا ہے کہ سردست صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں ہے، ہمیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سارہ قتل کیس: ایاز امیر ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ پولیس عدالت کو ابھی تک نہیں بتا سکی کہ کس ثبوت کے تحت ایاز امیر کو گرفتار کیا ہے، ہم تو تفتیش سے نہیں بھاگ رہے لیکن وارنٹ لے کر گرفتار کر لیا، کوئی ایسا ایکٹ بتا دیں جس سے ثابت ہو ایاز امیر ملوث ہیں۔

سرکاری وکیل نے دلائل دیے کہ یہ ساری باتیں ٹرائل کی ہیں، ریمانڈ اسٹیج پر دیکھا جائے کیا ثبوت آئے ہیں، کل مقتولہ کے والدین آئے ہیں، انہوں نے تدفین بھی کرنی ہے، ابھی تک ایاز امیر کا واٹس ایپ پر رابطہ ہوا وہ ثبوت ہے، اگر ہمیں خود بھی لگا کہ وہ بے گناہ ہیں تو ہم انہیں ڈسچارج کردیں گے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ایاز امیر کو نامزد بھی والدین نے کیا ہے، جج نے استفسار کیا کہ ایاز امیر کو جس نے نامزد کیا وہ کدھر ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ وہ مقتولہ کے چچا ہیں اور پاکستان ہی میں ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس بادی النظر میں ثبوت کیا ہے، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ مقتولہ کے قتل کے بعد ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شاہنواز امیر کا جسمانی ریمانڈ منظور، ایاز امیر کے وارنٹ گرفتاری جاری

سرکاری وکیل نے مزید کہا کہ مقتولہ کے والدین کے پاس سارے ثبوت ہیں، ایاز امیر کے وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ پولیس بندہ گرفتار کر کے ثبوت ڈھونڈ رہی ہے، ہماری استدعا ہے ایاز امیر کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ واٹس ایپ کال کا سی ڈی آر نہیں آتا، موبائل فون کو فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے، وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے، والد کا بیٹے سے رابطہ وقوعہ کے بعد ہوا ہے، باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے، پھر تو پولیس جس جس سے رابطہ ہوا اس کو ملزم بنا دے گی۔

وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ پولیس خود کہہ رہی ہے بے گناہ ہوئے تو ڈسچارج کر دیں گے تو اتنے دن گرفتار رکھا، جگ ہنسائی ہوئی، اس کا ذمہ دار کون ہے، ابھی پولیس ثبوت اکٹھی کر رہی ہے اور ایاز امیر کو گرفتار کر لیا ہے، مقتولہ کے والدین کا میرے مؤکل کے خلاف کوئی بیان بھی نہیں ہے، جب ثبوت آجائیں تو پھر وارنٹ لے کر آجائیں اور گرفتار کرلیں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ہم نے ثبوت بنانے ہوتے تو بنا دیتے، ایمانداری سے کام کر رہے ہیں، وکیل بشارت اللہ نے کہا کہ آپ کی ایمانداری یہ ہے کہ میرا مؤکل چار روز سے ہتھکڑی میں کھڑا ہے۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پولیس کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کیا جو بعد ازاں سناتے ہوئے ایاز امیر کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا۔

ایاز امیر کا نام مقدمے سے خارج کرنے کے اپنے مختصر حکم نامے میں جج نے کہا کہ صفحہ مثل پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔

بعد ازاں، عدالت کی جانب سے بریت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایاز امیر ایف آئی آر میں نامزد تھے نہ ہی موقع پر موجود تھے، پولیس ایاز امیر کے خلاف جرم میں اعانت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی، ایاز امیر کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایاز امیر کو مزید حراست میں رکھنا بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، ایاز امیر کو ضمنی بیان میں نامزد کیا گیا، کیس کا مرکزی ملزم شاہنواز امیر پہلے ہی گرفتار ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں سینئر صحافی ایاز امیر کی بہو قتل

واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے ایاز امیر کے جسمانی ریمانڈ میں ایک روز کی توسیع کردی تھی جب کہ انہوں نے جرم سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

سارہ قتل کیس

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ 22 ستمبر کی رات کسی تنازع پر جوڑے کے درمیان سخت جھگڑا ہوا تھا، بعد ازاں جمعہ کی صبح دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سر پر ڈمبل مارا۔

اس کے نتیجے میں خاتون کو گہرا زخم آیا اور وہ بیہوش ہوکر فرش پر گر گئیں، ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ خاتون کی موت سر پر چوٹ لگنے سے ہوئی یا ڈوبنے سے ہوئی کیونکہ سر پر چوٹ کے بعد وہ باتھ ٹب میں گری اور ملزم نے پانی کا نل کھول دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں