ناکافی فنڈز کے سبب حکومت متعدد ترقیاتی منصوبے روکنے پر مجبور

28 ستمبر 2022
رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ مالیاتی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے دونوں جگہوں پر انٹرچینج کا قیام ممکن نہیں—فائل فوٹو: اے پی پی
رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ مالیاتی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے دونوں جگہوں پر انٹرچینج کا قیام ممکن نہیں—فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ ترقیاتی بجٹ ایک کھرب سے کم ہو کر 550 ارب روپے رہ جانے کے باعث حکومت ملک میں بہت سے ترقیاتی منصوبے روکنے پر مجبور ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالتی احکامات کے باوجود سکھر-ملتان موٹروے (ایم 5) پر بھونگ انٹر چینج کے مقام کی تبدیلی سے متعلق درخواست پر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

یہ معاملہ 13 اگست 2021 کو ایک سماعت کے دوران سامنے آیا تھا جب عدالت رحیم یار خان میں گنیش مندر (بھونگ) کی توڑ پھوڑ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہی تھی۔

دوران سماعت مقامی مخیر شخصیت سردار رئیس منیر احمد نے عدالت کو بھونگ میں سی پیک انٹر چینج کے قیام کے لیے مندر کے قریب زمین کا ایک ٹکڑا عطیہ کرنے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق کا صوبائی ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقم کی فراہمی روکنے کا فیصلہ

رئیس منیر کی جانب سے سینئر وکیل حامد خان کی معاونت کرنے والے ایڈووکیٹ رانا وقار نے بتایا کہ 28 ستمبر 2021 کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی فزیبلٹی اسٹڈی مکمل کر لی ہے اور سی ڈی ڈبلیو پی نے بھی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد 23-2022 کے بجٹ میں اس منصوبے کے لیے ایک ارب 20 کروڑ روپے کی کُل لاگت میں سے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

رانا وقار نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد پلاننگ ڈویژن نے بھونگ انٹر چینج کا مقام جمالدین والی میں منتقل کر دیا حالانکہ اس منصوبے کے لیے فنڈز پہلے ہی مختص کیے جا چکے تھے۔

گزشتہ روز کیس کی سماعت ہوئی تو پلاننگ کمیشن کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ منصوبے کے مقام کو اس لیے تبدیل کیا گیا کیونکہ اصل منصوبہ معاشی لحاظ سے قابل عمل نہیں تھا۔

رپورٹ میں کمیشن نے کہا کہ جمالدین والی اور بھونگ کے درمیان فاصلہ صرف 15 کلومیٹر ہے، اس جگہ ان تعمیرات کے لیے عوامی مطالبہ بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں: سال 22-2021: ترقیاتی منصوبوں پر 2.1 کھرب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے، اسد عمر

انہوں نے کہا کہ ’لہذا عدالت عظمیٰ کو پلاننگ ڈویلپمنٹ کو اجازت دینی چاہیے کہ وہ این ایچ اے کو انٹرچینج کے لیے دونوں مقامات کے ٹریفک ڈیٹا اور اقتصادی طور پر قابل عمل ہونے کے حوالے سے ایک جامع مطالعہ کرنے کا حکم دے۔

رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ مالیاتی وسائل محدود ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے دونوں جگہوں پر انٹرچینج کا قیام ممکن نہیں ہے، حکومت این ایچ اے کے مطالعے کی روشنی میں اس منصوبے پر کام تیز کرے گی۔

عدالت نے اس حوالے سے سیکریٹری پلاننگ کو طلب کیا تھا تاہم ان کی جگہ احسن اقبال پیش ہوئے، انہوں نے اس منصوبے کی ذمہ داری لیتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی کی وجہ سے متعدد منصوبے روکنا پڑے۔

تاہم عدالت نے وفاقی وزیر کو یاد دہانی کروائی کہ بھونگ میں انٹر چینج کی تعمیر کا حکم حکومت سے مشاورت کے بعد ہی دیا گیا تھا، اب کسی بھی قسم کی خلاف ورزی عدالت کے حکم کی نافرمانی کے مترادف ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 201 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری

احسن اقبال نے جواب دیا کہ حکومت کا مقصد عدالتی حکم سے انکار نہیں ہے، عدالت کی سابقہ ہدایات پر نظرثانی کی درخواست کے ذریعے حکومت کی جانب سے مناسب جواب جمع کروایا جائے گا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 25 اگست 2022 کے حکم میں عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کی گئی درخواست کے مندرجات کا حوالہ دیا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انٹرچینج کا مقام کسی تکنیکی وجوہات کی وجہ سے نہیں بلکہ محض سیاسی بنیادوں پر کسی سیاسی شخصیت کی سہولت کے لیے تبدیل کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں