اسلام آباد کے علاقے مارگلہ کے مجسٹریٹ نے خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف دھمکی آمیز بیان پر درج مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

اسلام آباد کے مجسٹریٹ رانا مجاہد رحیم نے 20 اگست کو درج مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری 30 ستمبر کو جاری کیے۔

مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: ’شاید ریڈ لائن کراس کردی، معافی مانگنے کو تیار ہوں‘

عمران خان کے وارنٹ گرفتاری خاتون ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیباچوہدری کو دھمکی دینے کے کیس میں جاری کیے گئے ہیں۔

اسلام آباد پولیس نے بیان میں کہا کہ 'چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا معاملہ ایک قانونی عمل ہے، عمران خان پچھلی پیشی پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے'۔

پولیس نے کہا کہ 'عمران خان کی عدالت میں پیشی یقینی بنانے کے لیے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں اور معزز عدالت عالیہ نے مقدمہ نمبر 407/22 سے دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم جاری کیا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس حکم کے بعد یہ مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کیا گیاتھا، عمران خان نے سیشن کورٹ سے ابھی تک اپنی ضمانت نہیں کروائی، پیش نہ ہونے کی صورت میں انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے'۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے جیو نیوز کے پروگرام 'نیا پاکستان' میں بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتار کا اجرا معمول کی بات ہے اور یہ قابل ضمانت ہے

انہوں نے کہا کہ یہ قابل ضمانت جرم ہے اس لیے گرفتاری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا دوسری جانب عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی خبر کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان پارٹی سربراہ کی رہائش گاہ بنی گالا میں جمع ہوئے.

اسلام آباد پولیس نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ 'افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ پولیس کے 300اہلکار بنی گالہ بھیجے گئے ہیں، ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور بے بنیاد ہیں'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'بنی گالہ میں معمول کی ڈیوٹی بھیجی گئی ہے، شہریوں سے گزارش ہے کہ پروپیگنڈہ پر کان نہ دھریں'۔

گرفتاری کی غلطی نہ کریں، پی ٹی آئی رہنماؤں کی تنبیہ

پی ٹی آئی رہنماؤں نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد شدید ردعمل دیا اور حکومت کو خبردار کیا

سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'عمران خان کو حراست میں لینے کی غلطی نہ کرنا، پچھتاؤ گے'۔

سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بیان میں کہا کہ 'امپورٹڈ حکومت اور کٹھ پتلیاں یہ ذہن میں رکھیں کہ کسی بھی قسم کی غیر ضروری مہم کا عوامی ردعمل بہت شدید ہو گا جو یہ سہہ نہیں پائیں گے، بہتر ہے ریڈ لائن سے پیچھے اپنی اوقات میں رہیں'۔

فواد چوہدری نے کہا کہ 'عمران خان کا انتہائی کمزور دفعات اور کمزور مقدمے میں اس طرح وارنٹ جاری کرنا انتہائی فضول حرکت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'قابل ضمانت دفعات اور احمقانہ مقدمے کے ذریعے میڈیا کا تماشا لگایا گیا ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس کیس کی ہوا اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی نکل چکی ہے'۔

پی ٹی آئی رہنما مراد سعید نے بنی گالا سے ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ قیدیوں کی ایک وین عمران خان چوک پر پہنچی تھی اور اسلام آباد میں موجود پارٹی کارکنوں سے پارٹی سربراہ کی رہائش گاہ پر پہنچنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے ریڈ لائن کراس کرنے کی کوشش کی اور بنی گالا میں داخل ہوگئے تو کل صبح تک ہم تمہیں اسلام آباد کو جیل بنائیں گے۔

پی ٹی آئی کے متعدد رہنما بھی بنی گالہ پہنچے اور عمران خان سے حمایت کا مظاہرہ کیا۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب میں اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں’۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

جس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو درج مقدمے میں عمران خان کے خلاف دفعہ 504/506 اور 188/189 لگا ئی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردی کا مقدمہ: عمران خان کا ضمانت کیلئے کل عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم

بعد ازاں 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج دھمکی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ خارج کرنے کا حکم دیا تھا تاہم حکم میں کہا گیا تھا کہ دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے خاتون مجسٹریٹ زیبا چوہدری اور اعلیٰ پولیس افسران کو دھمکیاں دینے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلا کے دلائل کے بعد فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف انسداد دہشت گردی کے سوا دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے آج (یکم اکتوبر) ڈسٹرکٹ ایڈیشنل جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں بطور چیئرمین تحریک انصاف گزشتہ 26 سال سے قانون کی حکمرانی، عدلیہ کے احترام اور آزادی کے جدوجہد کررہا ہوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے برعکس میں نے ہمیشہ ہر عوامی اجتماع میں قانون کی حکمرانی کی بات کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے 20 اگست 2022 کو عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ریڈ لائن کراس کردی۔

انہوں نے کہا کہ میرا مقصد کبھی ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جزز کو دھمکی دینا نہیں تھا نہ ہی اس بیان کے پیچھے قانونی کارروائی کے سوا کےکوئی ارادہ تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی معزز جج کے سامنے یہ وضاحت کرنے کو تیار ہوں کہ نہ میں نے اور نہ میری پارٹی نے معزز جج کے خلاف کسی کارروائی کی درخواست کی اور اگر جج کو یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر میں نے لائن کراس کردی تھی تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں