ایران کے انسانی حقوق کے گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف خواتین کی زیرِ قیادت جاری مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن سے کم از کم 92 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے ’غیر موزوں لباس‘ کے باعث گرفتار کیا تھا، حراست کے دوران کومہ میں جانے کے بعد وہ 16 ستمبر کو انتقال کر گئی تھیں، جس کے نتیجے میں ایران میں تقریباً تین برسوں کی بدامنی کی سب سے بڑی لہر سامنے آئی۔

اوسلو میں قائم ایران کی انسانی حقوق تنظیم (آئی ایچ آر) نے بتایا کہ ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں جمعے کو ہوئی جھڑپوں میں مزید 41 افراد ہلاک ہو گئے، مزید کہا گیا کہ خطے کے پولیس سربراہ پر بلوچ اقلیت کی لڑکی کے ریپ کے الزامات نے بھی مظاہروں کو ہوا دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں ہونے والے مظاہروں کی حمایت کیلئے کینیڈا میں ہزاروں افراد کا مارچ

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہفتے کو دنیا بھر کے 150 شہروں میں ایرانی خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں، جنہوں نے حجاب کو جلا دیا ، ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد حجاب پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ احتجاج مسلسل 16ویں رات بھی جاری رہا جبکہ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں نے شہروں کو ہلا کر رکھ دیا، مظاہروں کا آغاز کرد اقلیت کے اس شہر سے ہوا تھا جہاں سے مہسا امینی کا تعلق تھا۔

اے ایف پی نے ایران کے اخبار کیہان کے حوالے سے بتایا کہ فسادیوں اور بدمعاشوں نے تہران میں اخبار کے دفتر پر حملہ کیا، جس کے ڈائریکٹر کی تقرری سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کی تھی۔

مزید پڑھیں: ایران: مہسا امینی کے والدین نے پولیس کے خلاف شکایت درج کرادی

آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایرانی حکومت کے جرائم کی تحقیقات کرائے اور ایرانی مظاہرین کو قتل ہونے سے بچائیں۔

'نوعمر لڑکی کا ریپ'

آئی آیچ آر نے دعویٰ کیا کہ احتجاج میں اب تک کم از کم 92 مظاہرین جاں بحق ہو چکے ہیں، اور وہ انٹرنیٹ سروس میں تعطل کے باوجود ہلاکتوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لیے کام کررہا ہے۔

قبل ازیں لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 53 ہلاکتوں کی تصدیق کردی تھی جبکہ ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی 'فارس' نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ تقریباً 60 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

تہران نے ملک میں بدامنی پر قابو پانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور بتایا گیا کہ صوبے سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں جھڑپوں کے دوران پاسداران انقلاب کے 5 اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل

مولوی عبدالحامد نے ویب سائٹ پر بیان میں بتایا کہ صوبے میں ایک پولیس افسر کی جانب سے ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ ریپ سے کمیونٹی میں اشتعال پیدا ہوا۔

آئی ایچ آر نے الزام عائد کیا کہ سیستان بلوچستان کے شہر چاہ بہار میں پولیس سربراہ کی جانب سے 15 سالہ بلوچ لڑکی کا مبینہ ریپ کے بعد مظاہرے شروع ہوئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والے شہریوں پر بہیمانہ تشدد کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں