اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شہری منیب اکرم کی عدالت میں پیشی کے بعد بازیابی کی درخواست نمٹاتے ہوئے آئی جی اسلام آباد پولیس کو واقعے کی تحقیقات کرکے رپورٹ 2 ہفتوں میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

لاپتا شہری منیب اکرم کی بازیابی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

لاپتا شہری منیب اکرم کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا، پولیس شہری کو لے کر عدالت پہنچی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ یہ اچانک دوسرا تیسرا واقعہ ہے، یہ بتا دیں ایسا ہو کیوں رہا ہے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ بھی پڑھیں: لاپتا شہری حسیب حمزہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش، پولیس سے گمشدگی کی رپورٹ طلب

وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اس عدالت کے حکم کے بعد اپنی ایجنسیوں کو لاپتا افراد سے متعلق معلوم کرنے کا کہا، دونوں ایجنسیوں کی تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری دونوں ایجنسیوں کے پاس یہ لوگ نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں سے ہیں، کوئی بھی شہری اٹھایا جائے تو ایجنسیوں کا کام اس سے متعلق معلوم کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایجنسیوں کا یہ کام نہیں کہ صرف یہ بتائیں کہ ہمارے پاس نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کی حدود سے کسی کو اٹھایا جاتا ہے تو سیکٹر کمانڈرز بھی ذمہ دار ہوں گے، پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) بھی اٹھا لے تو سیکٹر کمانڈرز ذمہ دار ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شکر ہے کہ یہ بچہ صحیح سلامت واپس آگیا ہے، نہ آتا تو پھر؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جس اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی حدود سے یہ لڑکا اٹھایا گیا پولیس نے اس کے خلاف کیا کارروائی کی؟ کیوں نہ اس ایس ایچ او سے آئی جی تک سب کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟

انہوں ریمارکس دیے کہ یہ دارالخلافہ ہے، تورا بورا نہیں ہے، یہ اتنے آرام سے ہو سکتا ہے کہ لوگ آئیں اور ایک لڑکے کو رات کو اٹھا کر لے جائیں؟

مزید پڑھیں: لاپتا افراد کے معاملے پر پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، وزیر داخلہ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ کون ہیں، کہاں تھے آپ، جس پر بازیاب شہری نے جواب دیا کہ میں حافظ منیب اکرم ہوں، مجھے 19 اگست کو رات گھر سے کچھ لوگوں نے اٹھایا۔

بازیاب شہری منیب اکرم نے عدالت کو بتایا کہ میرا لیپ ٹاپ اور موبائل لے کر چیک کیا اور مجھے دھمکیاں دی گئیں، میں ڈر کی وجہ سے گاؤں چلا گیا تھا اور موبائل بند کردیا تھا۔

بازیاب شہری نے کہا کہ یکم اکتوبر کو گھر واپس آیا ہوں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو کس نے اٹھایا؟ جس پر بازیاب شہری نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں مگر سول کپڑوں میں لوگ آئے تھے۔

عدالت نے ایس ایچ او سے استفسار کیا کہ ایس ایچ او صاحب آپ کے علاقے میں یہ کیا ہو رہا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بازیاب شہری سے مکالمہ کیا کہ اگر 6 گھنٹے بعد آپ کو چھوڑا تو گھر کیوں نہیں بتایا، اس پر اس نے بتایا کہ میں گھر والوں کو بتاتا تو گھر والے واپس لے آتے، اور مجھے خوف تھا کہ کہیں دوبارہ نہ اٹھا لیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد 2 ہفتوں میں تحقیقات کر کے رپورٹ رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ درخواست گزار فیملی کو ہراساں نہ کیا جائے۔

عدالت نے منیب فاروق کی بازیابی کے بعد درخواست نمٹا دی۔

یاد رہے کہ 14 ستمبر کو بھی عدالت کے حکم کے مطابق لاپتا شہری حسیب حمزہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا تھا، جس کے بعد عدالت نے بازیابی کی درخواست نمٹا دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں