سندھ ہائیکورٹ: منی لانڈرنگ کیس میں حریم شاہ کی 7 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

04 اکتوبر 2022
بینچ نے درخواست گزار کو 25 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی—فوٹو: انسٹاگرام
بینچ نے درخواست گزار کو 25 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی—فوٹو: انسٹاگرام

سندھ ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کے الزامات کی انکوائری میں ٹک ٹاکر حریم شاہ کی 7 روز کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے درخواست گزار کو 25 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی اور واضح کیا کہ اگر وہ مقررہ وقت میں انکوائری افسر کے سامنے پیش نہ ہوئیں تو ضمانت ضبط کر لی جائے گی۔

حریم شاہ کے نام سے معروف فضا حسین نے اپنے وکیل کے ذریعے درخواست ضمانت دائر کی تھی.

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ نے حریم شاہ کی درخواست مسترد کردی

درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے جنوری میں انہیں نوٹس بھیجا تھا اور فروری میں سندھ ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو ان کے خلاف کوئی جبری کارروائی نہ کرنے جبکہ درخواست گزار کو انکوائری میں شامل ہونے کی ہدایت کی تھی لیکن وہ پاکستان پہنچ کر انکوائری میں شامل نہیں ہو سکیں۔

وکیل نے مزید کہا کہ حریم شاہ نے اپنے وکیل کے ذریعے اسی طرح کے ریلیف کے لیے گزشتہ ہفتے دوبارہ سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ان کی درخواست خارج کردی گئی۔

وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب درخواست گزار ملک واپس آچکی ہیں، کمرہ عدالت میں بھی حاضر ہیں اور انکوائری میں شامل ہونے کو تیار ہیں، انہوں نے انکوائری میں شامل ہونے کے لیے محدود مدت کے لیے قانونی تحفظ کی استدعا کی۔

چنانچہ کیس کی تفصیلات میں جائے بغیر بینچ نے ان کی ایک ہفتے کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔

مزید پڑھیں: حریم شاہ کا بھاری رقم باہر لے جانے کا دعویٰ، منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع

خیال رہے کہ جنوری میں ٹک ٹاکر نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں وہ برطانوی پاؤنڈز کی دو ڈھیریوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں اور ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے بہت زیادہ رقم کے ساتھ پاکستان سے برطانیہ کا سفر کیا۔

جس پر ایف آئی اے نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کی انکوائری شروع کی تھی۔

نو عمر لڑکی اغوا کیس

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کی ایک کم عمر لڑکی سے شادی کرنے والے ایک شخص کی جانب سے دائر درخواست کو خارج کر دیا جس میں عدالتی احکامات کے باوجود مبینہ اغوا کے حوالے سے فوجداری دفعات عائد کرنے پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ اور تفتیشی افسر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔

دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد جسٹس صلاح الدین پنہور کی سربراہی میں سنگل بنچ نے درخواست قابل سماعت نہ ہونے پر خارج کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: حریم شاہ کے خلاف ’منی لانڈرنگ‘ کے بعد ’سائبر کرائم‘ کی تفتیش شروع

لاہور کے رہائشی ظہیر نے اپنے وکیل کے توسط سے مؤقف اختیار کیا تھا کہ لڑکی نے 17 اپریل کو لاہور میں اس کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کی تھی، تاہم لڑکی کے والد نے اسے الفلاح تھانے میں درج اغوا کے مقدمے میں مرکزی ملزم نامزد کردیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے دو احکامات کا حوالہ دیا اور دلیل دی کہ سندھ ہائی کورٹ نے 6 جون اور 8 جون کو لڑکی کا بیان حلفی ریکارڈ کیا تھا جس میں اس نے اغوا ہونے سے انکار کیا تھا اور بینچ نے آبزرویشن دی تھی کہ مبینہ طور پر اغوا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

وکیل کے مطابق عدالت نے لڑکی کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی دی تھی کہ وہ کس کے ساتھ رہنے یا ساتھ جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: نوعمر لڑکی کے اغوا کیس میں ریپ کی دفعات شامل

انہوں نے مزید استدلال کیا کہ لڑکی کے والد نے سپریم کورٹ کے سامنے سندھ ہائی کورٹ کے کے 8 جون کے حکم کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کر دیا تھا اوردرخواست گزار کو لڑکی کے ہڈیوں کے ٹیسٹ/رپورٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت دی تھی۔

وکیل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کی دی گئی آبزرویشنز اور حکم کو عدالت عظمیٰ نے بھی برقرار رکھا جس کے ماتحت عدالتوں کے ساتھ ساتھ کیس کے پراسیکیوٹر جنرل اور تفتیشی افسر بھی پابند تھے

تاہم انہوں نے درخواست گزار کے خلاف فوجداری دفعات عائد کیں اور اس کے اہلِ خانہ کو بھی اس میں شامل کیا جو عدالت کے فیصلے کی سنگین خلاف ورزی اور توہین کے مترادف تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں