فیصل واڈا کیس میں غلطی تسلیم کی گئی، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2022
چیف جسٹس کی سربراہی میں  3 رکنی بینچ نے فیصل واڈا کی درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصل واڈا کی درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واڈا کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے۔

سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق سینیٹر کی درخواست پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 ون ایف کالا قانون ہے، چیف جسٹس

سماعت میں فیصل واڈا کے وکیل وسیم سجاد نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں اس لیے نااہلی کا فیصلہ نہیں دے سکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے، اثاثے چھپانے یا غلطی کرنے پر آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی ایک مدت تک ہوتی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جب سفارت خانے جا کر شہریت منسوخ نہیں کروائی تو نادرا نے سرٹیفیکیٹ کیسے دے دیا؟

اس پر وکیل فیصل واڈا نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے امریکی سفارت خانے جاکر نائیکوپ منسوخ کرایا تھا، فیصل واڈا نے حقائق چھپائے نہ کوئی بدیانتی کی۔

مزید پڑھیں: فیصل واڈا کی نااہلی کے خلاف درخواست سماعت کے لیے مقرر

وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ فیصل واڈا کا سارا جھگڑا سینیٹ کی نشست کا ہے۔

وکیل وسیم سجاد نے تفصیلات عدالت کو بتاتے ہوئے کہا کہ ‏فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی 7 جون 2018 کو جمع کرائے جن پر 18 جون کو اسکروٹنی ہوئی۔

‏جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ فیصل واڈا نے دوہری شہریت چھوڑنے کا بیان حلفی کب جمع کرایا تھا؟

‏وکیل نے بتایا کہ فیصل واڈا نے بیان حلفی 11 جون 2018 کو جمع کرایا، ریٹرننگ افسر کو بتا دیا تھا کہ امریکی شہریت چھوڑ دی ہے۔

‏جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ انہوں نے کس تاریخ کو امریکی سفارت خانے میں جاکر شہریت منسوخ کرائی؟ ‏جس پر وکیل نے کہا کہ امریکی سفارت خانے جاکر کہہ دیا تھا کہ شہریت چھوڑ رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: تاحیات نااہلی کے خلاف فیصل واڈا کی درخواست مسترد

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ نے سفارت خانے جا کر زبانی بتا دیا کہ میرا پاسپورٹ منسوخ کر دو؟ ‏وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ امریکی شہریت چھوڑنے کا ثبوت میں نے تو نہیں دینا تھا۔

‏عدالت نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی 11 جون کو جمع کرانے سے پہلے زحمت ہی نہیں کی کہ دوہری شہریت کا معاملہ ختم کریں؟

‏وکیل نے مزید کہا کہ نادرا نے فیصل واڈا کو 29 مئی 2018 کو امریکی شہریت منسوخ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ بیان حلفی جمع کراتے وقت فیصل واڈا کا امریکی پاسپورٹ منسوخ نہیں ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن عدالت ہی دے سکتی ہے، شواہد کا جائزہ لیے بغیر کسی کو بددیانت یا بے ایمان نہیں کہا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: دوہری شہریت کیس: الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو نا اہل قرار دے دیا

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی ڈیکلریشن کا مطلب ہے شواہد ریکارڈ کیے جائیں، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کا معیار مقرر کر چکی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا نے امریکی شہریت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد چھوڑی ہے۔

وکیل فیصل واڈا نے دوہری شہریت پر تاحیات نااہلی ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ دوہری شہریت پر آرٹیکل 63 ون سی کا آ اطلاق ہوتا ہے، دوہری شہریت پر رکن صرف ڈی سیٹ ہوتا ہے تاحیات نااہل نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے فیصل واڈا کے وکیل کو الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے متعلق مزید تیاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 13 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

فیصل واڈا نااہلی

یاد رہے کہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت پر نااہلی کی درخواستوں پر فیصلہ 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کیا تھا۔

محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی 'غلط' قرار دیا گیا تھا۔

فیصل واڈا پر الزام تھا کہ انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے ہوئے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: دوہری شہریت کا معاملہ: فیصل واڈا کی نااہلی کیلئے دائر درخواست سماعت کے لیے مقرر

فیصل واڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، مذکورہ کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی کیس پر سماعت ہوئی۔

فیصل واڈا کی دوہری شہریت کے خلاف قادر مندوخیل کی جانب سے 2018 میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس وقت فیصل واڈا نے قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے اس وقت وہ دوہری شہریت کے حامل اور امریکی شہری تھے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں ایک بیانِ حلفی دائر کیا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک کے شہری نہیں ہے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ چونکہ انہوں نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا اس لیے آئین کی دفعہ 62 (1) (ف) کے تحت وہ نااہل ہیں۔

درخواست کی سماعت کے دوران سابق وزیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا، کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل انہوں نے اپنا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا۔

سماعت کے دوران فیصل واڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے ان کا پیدائشی سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا اور بتایا تھا کہ فیصل واڈا امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی طور پر امریکی شہری تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں