آئندہ ربیع سیزن میں گندم کی پیداوار میں کمی کے خدشات ہیں جب کہ منافع میں کمی اور پیداواری لاگت میں اضافہ کسانوں کو مکئی اور چاول جیسی متبادل فصلوں کی جانب دھکیل رہا ہے جس سے قومی غذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی صورتحال پر سیلاب کے نتیجے میں غذائی قلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی کوششوں پر زور دیا ہے۔

2021-22 کے دوران گندم کا زیر کاشت رقبہ 2.1 فیصد کم ہو کر ہیکٹر89 لاکھ 76 ہزار ایکڑ رہ گیا جو 2020-21 میں91 لاکھ 68 ہزار ایکٹر تھا، رقبے میں کمی کے ساتھ ساتھ پیداوار بھی 3.9 فیصد کم ہو کر2 کروڑ 64 لاکھ ٹن رہ گئی جو ایک سال پہلے 2 کروڑ 75 لاکھ ٹن تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا خدشہ

حکام نے پیداوار میں کمی کی وجہ رقبہ میں کمی، پانی کی کمی، بوائی کے وقت خشک سالی، کھاد کی کم مقدار اور مارچ اور اپریل کے دوران گرمی کی لہر کو قرار دیا ہے، یہ کمی کم از کم امدادی قیمت ایک ہزار 850 روپے فی 40 کلو گرام سے بڑھا کر 22 سو روپے کرنے کے فیصلے کے باوجود آئی ہے۔

اس صورتحال کے باوجود وفاقی کمیٹی برائے زراعت نے 2022.23 ربیع سیزن کے لیے 93 لاکھ ایکٹر رقبے سے 2 کروڑ 84 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کا ہدف مقرر کیا ہے جس کا حصول ناممکن نظر آتا ہے جب کہ سندھ اور پنجاب کے کچھ اضلاع میں زرعی اراضی کا بڑا حصہ تاحال زیر آب ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس تخمینے اور ہدف کو مقرر کرنے کے دوران حکام نے کھاد کی اونچی قیمت کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جو اس کی کھپت مزید کم کر سکتی ہے اور گندم کا بیج بھی مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔

کچھ جدت پسند کسانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گندم کے لیے زیر کاشت رقبہ مزید کم ہو جائے گا جس سے اجناس کی قلت پیدا ہو جائے گی۔

مزید پڑھیں: ملک کے کچھ حصوں میں غذائی تحفظ کی صورتحال بدتر ہونے کا اندیشہ

وہ اپنے خدشات کی وجہ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت، اسمگلنگ، کھاد کی عدم دستیابی اور منافع میں کمی کو قرار دیتے ہیں۔

وزیراعظم کا فوڈ سیکیورٹی کے لیے اجتماعی کوششوں پر زور

خوراک کے عالمی دن کے موقع پر جاری پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی ترقیاتی شراکت داروں اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ سیلاب کے بعد تعمیر نو بالخصوص خوراک کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں پاکستان کا ساتھ دیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرعی شعبہ کی بہتری کے لئے جلد کسان کانفرنس کا انعقاد کرنے جارہے ہیں جہاں حکومت کی جانب سے زرعی شعبہ کی بہتری کے لئے پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئیں ہم یہ عہد کریں کہ برادریوں، معاشروں اور دنیا کے لئے بڑے پیمانے پر خوراک کو محفوظ بنانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مل کر کام کریں ۔

وزیراعظم نے کہا کہ بہتر پیداوار، بہتر غذائیت، بہتر ماحول اور بہتر زندگی میں ہم نے کسی کو پیچھے نہیں چھوڑنا، ہم ایک ایسے نازک لمحے پر خوراک کا عالمی دن منا رہے ہیں جب پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں تباہ کن سیلابوں سے ہونے والی تباہ کاریوں سے بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں 16.4 فیصد گھرانوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا

ان کا کہنا تھا کہ یہ دن عالمی سطح پر بھوک، غذائیت کی کمی اور سب کے لیے خوراک اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سال کا موضوع ”کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں“ ہے جو ہمیں غربت اور بھوک کے خاتمے کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنے کی یاد دلاتا ہے اور اس بات کا ادراک کریں کہ ہم جو خوراک منتخب کرتے ہیں اور جس طرح سے ہم اسے کھاتے ہیں وہ ہماری زمین اور ہماری صحت پر اثر اندازتو نہیں ہو رہی ۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان زراعت کے لیے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، ہمیں اپنی قدیم وادی سندھ کی تہذیب پر فخر ہے جس کی بنیاد زراعت پر تھی، تاہم بہت سے عوامل جن میں موسمیاتی تبدیلی، قدرتی وسائل میں کمی، ان پٹ کی قیمتوں میں اضافہ، فارم مشینری کی کمی اور منڈیوں میں اتار چڑھائو شامل ہیں، کی وجہ سے پاکستان میں زرعی پیداوار کے شعبہ کو کافی مشکلات درپیش ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے پاکستان میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے فصلوں کا نقصان ایک معمول بنتا جا رہا ہے، اس لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنا، فصلوں کے نقصانات کو کم کرنا، پیداوار کو بہتر بنانا اور ذرائع معاش کو بڑھانا ہمارے بڑے چیلنجز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سال کے مون سون کے دوران تباہ کن سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچائی ہے جس سے 33 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں مویشیوں، کھڑی فصلوں اور ضروری انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے۔

صوبہ سندھ، جو ملک کی غذائی سپلائی کا تقریبا ایک تہائی حصہ پیدا کرتا ہے، بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جس نے صوبے کی کل فصلوں کے تقریبا 50 فیصد کو نقصان پہنچایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے اس موسم خزاں میں گندم کی بوائی کے سیزن میں تاخیر کا بھی خطرہ ہے، جس سے اگلے سال تک خوراک کی کمی اور قیمتوں میں اضافے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ ایک ایسے ملک کے لئے تشویشناک ہے جس کا انحصار گندم کی پیداوار پر ہے اور یہ متوقع قلت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب گندم کی عالمی سپلائی غیر یقینی ہو، اس صورتحال نے پاکستان میں غذائی تحفظ کے ہمارے چیلنجوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کئے جائیں گے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان دنیا میں کپاس اور چاول کی پیداوار اور برآمد کنندگان میں سے ایک ملک ہے جنہیں سیلاب سے نقصان پہنچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کی کپاس کی نصف فصل تباہ ہو چکی ہے جو کہ ایسے سال میں کپاس کی عالمی پیداوار کے لیے ایک دھچکا ہے جب کپاس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں کیونکہ امریکہ سے لے کر چین تک دیگر بڑے پیدا کنندگان بھی شدید موسم کے اثرات کی زد میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلاشبہ صورت حال بہت مشکل ہے تاہم پاکستان اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے جس کا مقصد غربت کے خاتمے، صحت اور تعلیم کو بہتر بنانا اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

مزید پڑھیں: ’آدھی آبادی غذائی عدم تحفظ کاشکار‘

وزیر اعظم نے کہا کہ ان مشکل وقتوں سے نکلنے ، کاشتکار برادری کو ریلیف فراہم کرنے اور زرعی معیشت کو فروغ دینے کے لیے حکومت جلد ہی کسان کانفرنس کا اہتمام کرنے جا رہی ہے جہاں زرعی شعبے کی بہتری کے لیے پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی اشد ضرورت ہے بالخصوص فارم میکانائزیشن، فوڈ پروسیسنگ، مویشیوں کی نسلوں کی بہتری اور اعلی قیمت والی باغبانی فصلوں کے شعبے میں بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے عالمی ترقیاتی شراکت داروں اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ سیلاب کے بعد تعمیر نو سے نمٹنے کی کوششوں میں خاص طور پر خوراک کے چیلنجوں سے نمٹنے کے حوالے سے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔

وزیراعظم نے کہا کہ خوراک کے عالمی دن کے موقع پر آئیے ہم یہ عہد کریں کہ برادریوں، معاشروں اور دنیا کے لئے بڑے پیمانے پر خوراک کو محفوظ بنانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔

شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ آئیے ہم بھی موسمیاتی تبدیلی سے غذائی تحفظ کو لاحق خطرات پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والی فورسز میں شامل ہونے کا عزم کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں