اراکین قومی اسمبلی کا نشتر ہسپتال سے برآمد لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ

18 اکتوبر 2022
عبدالقادر مندوخیل نے کہا میڈیکل کے طالب علموں کو لاوارث لاشیں فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں—ٹوئٹر قومی اسمبلی
عبدالقادر مندوخیل نے کہا میڈیکل کے طالب علموں کو لاوارث لاشیں فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں—ٹوئٹر قومی اسمبلی

قومی اسمبلی اجلاس میں اراکین نے ملتان کے نشتر ہسپتال کی چھت پر مسخ شدہ لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ لاشیں سندھ اور ملک کے قبائلی علاقوں سے لاپتا افراد کی ہوسکتی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ مطالبہ سب سے پہلے متحدہ قومی مومنٹ (ایم کیوایم) کی رہنما کشور زہرہ نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران کیا جس کے بعد اسمبلی کے کئی ارکان نے کشور زہرہ کے مطالبے کی حمایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: نشتر ہسپتال کی چھت پر مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ، طبی اخلاقیات، ایس او پیز کی خلاف ورزی

کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری جماعت ملتان کی چھت سے مسخ شدہ تمام لاشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا مطالبہ کرتی ہے، ہم لاپتا افراد کا ہر حال میں پتا لگائیں گے، اللہ نہ کرے یہ لاشیں اُنہی لاپتا افراد کی ہوسکتی ہیں‘ کشور زہرہ نے کہا کہ ’ہسپتال کی چھت سے 200 لاشیں برآمد ہوئی تھیں‘۔

دوسری جانب شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے کشور زہرہ کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہسپتال کی چھت سے تقریباً 500 کے قریب لاوارث لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

قومی اسمبلی میں نشتر ہسپتال سے مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ تب اٹھایا گیا جب وزیراعلی پنجاب پرویز الہٰی نے ہسپتال کے 3 ڈاکٹر، 3 ملازمین اور متعلقہ تھانوں کے 2 ایس ایچ اوز کو معطل کردیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے ملتان میں نشتر ہسپتال کے مردہ خانے کی چھت پر لاوارث لاشیں برآمد ہوئی تھیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں، حکام کے مطابق چھت سے تقریباً تین درجن لاشیں برآمد ہوئیں تھیں۔

مزید پڑھیں: ملتان کے نشتر ہسپتال میں لاشوں کی بے حرمتی، تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل

گزشتہ ماہ ستمبر میں سانگھڑ، میرپور خاص اور عمر کوٹ سمیت سندھ کے اندروں علاقوں سے 4 لاپتا ایم کیو ایم کارکنان کی تشدد شدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔

کشور زہرہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں اس معاملے پر شدید احتجاج کیا جبکہ ایم کیو ایم نے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی اٹھایا تھا۔

قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما عبدالقادر مندوخیل نے نشتر ہسپتال میں لاشوں کے معاملے پر پنجاب حکومت پر شدید تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنان کئی برسوں سے لاپتا ہیں، نشتر ہسپتال کے واقعہ پر تحقیقات ہونی چاہیے۔

عبدالقادر مندوخیل کا کہنا تھا کہ میڈیکل کے طالب علموں کو لاوارث لاشیں فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں، ’قاتل اور درندے‘ ڈاکٹر کے بھیس میں ملتان ہسپتال میں موجود ہیں جنہوں نے لاشوں کو چیل کّووں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نشتر ہسپتال کی چھت پر لاشوں کامعاملہ، ڈاکٹروں، ایس ایچ اوز سمیت 8 عہدیدار معطل

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت آئی جی پنجاب پولیس سے رپورٹ طلب کرکے پارلیمنٹ میں پیش کرے۔

محسن داوڑ نے مطالبہ کیا کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں اور رپورٹ کو پارلیمانی کمیٹی برائے داخلہ کو بھجوائی جائے تاکہ ذمہ داروں کو سزا دی جا سکے، انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں بربریت کی ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایم این اے نے معاملہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ قبائلی علاقوں سے لاپتا افراد کی لاشیں ملتان کے ہسپتال میں ہونے کے خدشہ کو دور کرنے کے لیے معاملے کی تحقیقات لازمی ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے پہلے اس معاملہ کو صوبائی معاملہ قرار دیا تھا بعد ازاں قومی اسمبلی میں اراکین کی جانب سے معاملہ اٹھانے پر انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت سے معاملہ کی رپورٹ طلب کرکے جواب دیں گے۔

مزید پڑھیں: کراچی سے کئی برس قبل ’لاپتا‘ ہوئے مزید 3 افراد کی لاشیں سندھ کے مختلف شہروں سے برآمد

وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمٰن کانجو نے بھی دیگر ارکان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کی شناخت کے لیے لاشوں کا ڈی این اے ہونا چاہیے۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی غیر موجودگی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رہنما عالیہ کامران اجلاس کی صدرت کررہی تھیں تاہم انہوں نے اس معاملے پر کوئی رولنگ نہیں دی۔

تبصرے (0) بند ہیں