آسٹریلیا نے مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا

18 اکتوبر 2022
اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ نے آسٹریلیا کے اس اقدام کو جلد باز ردِ عمل قرار دیا—فائل فوٹو: رائٹرز
اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ نے آسٹریلیا کے اس اقدام کو جلد باز ردِ عمل قرار دیا—فائل فوٹو: رائٹرز

آسٹریلیا نے سابقہ حکومت کے مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو واپس پلٹتے ہوئے کہا ہے کہ شہر کی حیثیت کو اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان امن مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ آسٹریلیا ’ہمیشہ اسرائیل کا ایک ثابت قدم دوست رہے گا‘ اور وہ دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہے جس میں اسرائیل اور مستقبل کا فلسطین بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر امن کے ساتھ اکٹھے رہیں۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ’آسٹریلیا کی ایک منصفانہ اور پائیدار دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کی ذمہ دارانہ کوششوں کے لیے بین الاقوامی کوششوں کا دوبارہ عہد کرتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کے بعد آسٹریلیا نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا

خیال رہے کہ سابق آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے دسمبر 2018 میں مشرق وسطیٰ سے متعلق کئی دہائیوں پرانی پالیسی کو یہ کہہ کر بدل دیا تھا کہ آسٹریلیا مغربی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے لیکن وہ اپنا سفارت خانہ فوری طور پر وہاں منتقل نہیں کرے گا۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سال قبل یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا، لیکن انہوں نے اس شہر کی وضاحت نہیں کی تھی جس کا مشرقی حصہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے بڑے مقدس مقامات پر مشتمل ہے اور فلسطینی اسے اپنے مستقبل کا دارالحکومت دیکھنا چاہتے ہیں۔

پینی وونگ نے صحافیوں کو بتایا کہ اسکاٹ موریسن کے 2018 کے فیصلے نے ’آسٹریلیا کو بین الاقوامی برادری کی اکثریت سے باہر کر دیا‘ اور مسلم اکثریتی پڑوسی ملک انڈونیشیا نے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فوجیوں نے آبادکاروں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں پر تشدد کیا، این جی او

ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ اسکاٹ موریسن کے سیاست کھیلنے کے فیصلے کے نتیجے میں آسٹریلیا کی پوزیشن بدل گئی، اور ان تبدیلیوں سے آسٹریلوی کمیونٹی کے بہت سے لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے جو ان مسائل کی گہری فکر کرتے ہیں۔’

یاد رہے کہ اسکاٹ موریسن نے 2018 میں سفارت خانے کو تل ابیب سے منتقل کرنے کا عندیہ دیا تھا جس سے کچھ روز قبل سڈنی کے ووٹروں میں ایک مضبوط یہودی نمائندگی کے ساتھ ضمنی انتخاب ہوا تھا، جس میں اس اعلان کے باوجود لبرل پارٹی ہار گئی تھی۔

دی گارجین نے سب سے پہلے پیر کو محکمہ خارجہ اور تجارت کی ویب سائٹ سے مغربی یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت کہنے والے بیان میں تبدیلی کی اطلاع دی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم انتھونی البانی کی کابینہ نے کیا ہے۔

اسرائیل کا ردعمل

اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ نے اس اقدام کو ’جلد باز ردِ عمل‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ آسٹریلوی حکومت دیگر معاملات کو زیادہ سنجیدگی اور پیشہ ورانہ طریقے سے سنبھالے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج نے گزشتہ سال فلسطینی صحافیوں پر 260 سے زیادہ حملے کیے، رپورٹ

وزیراعظم نے اپنے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ’یروشلم اسرائیل کا ابدی اور متحدہ دارالحکومت ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘

اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے باضابطہ احتجاج درج کرانے کے لیے آسٹریلوی سفیر کو طلب کیا ہے۔

یروشلم پر اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی دعویٰ کرتے ہیں اور زیادہ تر غیر ملکی حکومتیں اسے کسی بھی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے سے گریز کرتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں