سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی بریت کے فیصلے پر وفاقی حکومت نے نظرثانی پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل آفس نے سپریم کورٹ سے اظہار تشویش کے لیے خط کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی بریت کے فیصلے سے قبل اٹارنی جنرل آفس سے رائے طلب نہیں کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سپریم کورٹ نے شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کو بری کردیا

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کو پہلے ہی اہم آئینی معاملہ قرار دے چکی ہے، اس طرح کے اہم آئینی معاملات پر پہلے بھی اٹارنی جنرل کی رائے طلب کی جاتی رہی ہے۔

مزید کہا گیا کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سندھ ہائی کورٹ کا بریت کا فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

خط میں مزید کہا گیا کہ بریت کے فیصلے میں سپریم کورٹ دہشت گردی جرائم پر عدالتی فیصلوں سے ہٹ کر نتیجے پر پہنچا، سمجھوتے، فساد فی الارض اور دیگر معاملات میں اس کیس پر نظر ثانی بنتی ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ ان تمام وجوہات کی بنا پر اٹارنی جنرل کا آفس سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی پٹیشن دائر کرے گا۔

خیال رہے کہ آج صبح جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے بعد شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کو بری کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل

ملزم کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ فریقین کا پہلے ہی راضی نامہ ہوچکا ہے اور ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ قتل کے واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا گیا۔

عدالت نے وکیل کے دلائل سننے کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج تالپور سمیت دیگر ملزمان کو بری کردیا۔

شاہ زیب قتل کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو دسمبر 2012 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مقدمے کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد پولیس نے مجرموں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا تھا۔

بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 30 جون 2013 کو شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

مجرمان نے 2013 میں ہی سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

عدالت کی جانب سے سزائے موت سنانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کردیا تھا جس کو سندھ ہائی کورٹ نے منظور کیا تھا۔

شاہ زیب کے والدین کی جانب سے معافی نامہ جاری کرنے کے بعد سزائے موت دہشت گردی کی دفعات کے باعث برقرار تھی، تاہم 11 نومبر 2017 کو سندھ ہائی کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم جاری کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف شاہ رخ جتوئی کی نظرثانی اپیل

30 دسمبر کو سیشن کورٹ نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر مجرموں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

یاد رہے کہ 26 دسمبر 2017 کو وکلا، انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کے مقدمے کو سیشن عدالت بھیجنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ نے یکم فروری 2018 کو شاہ زیب قتل کیس میں متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شاہ رخ جتوئی سمیت 3 مجرمان کو دی جانے والی ضمانت اور مذکورہ کیس دوبارہ سول عدالت میں چلانے کا فیصلہ معطل کرکے مجرمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پولیس کو مجرمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے تینوں مجرمان کے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی دیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس نذر اکبر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے مجرمان کے خلاف کیس کی سماعت کی تھی اور 11 مارچ کو فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

13 مئی 2019 کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت عالیہ نے 2 مجرمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا جبکہ دیگر 2 مجرمان کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ یہ بھی پڑھیں: شاہ زیب قتل کیس: سیشن عدالت کے حکم پر ملزمان ضمانت پر رہا

عمر قید کی سزا کے خلاف شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں