پاکستان سیلاب کے بعد اربوں ڈالرز کے مزید قرضوں کا خواہاں ہے، رپورٹ

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2022
شہباز شریف نے کہا میگا انڈرٹیکنگز جیسے سڑکوں، پلوں اور انفرااسٹرکچر کی تعمیرنو کے لیے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف نے کہا میگا انڈرٹیکنگز جیسے سڑکوں، پلوں اور انفرااسٹرکچر کی تعمیرنو کے لیے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

معروف عالمی جریدے ’فنانشل ٹائمز‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ تباہ کن اور ہلاکت خیز سیلاب نے ملک کے معاشی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے جب کہ پاکستان، عالمی قرض دہندگان سے اربوں ڈالرز کے مزید قرضوں کے لیے درخواست کرے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادرے 'رائٹرز' کی خبر کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ہم کسی قسم کے ایسے اقدامات جیسا کہ ری شیڈولنگ یا موریٹوریم کی بات نہیں کر رہے، ہم اضافی فنڈز طلب کر رہے ہیں۔

فنانشل ٹائمز نے شہباز شریف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ملک کو میگا انڈرٹیکنگز جیسے سڑکوں، پُلوں اور تباہ شدہ یا بہہ جانے والے دیگر انفرااسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا ماحولیاتی مسائل پر وفاقی اکائیوں میں بہتر ہم آہنگی کی ضرورت پر زور

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان کتنی رقم طلب کر رہا ہے لیکن انہوں نے سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر کے نقصانات کے تخمینے کو دہرایا۔

رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے پاکستان کے لیے اپنی انسانی امداد کی اپیل کو 16 کروڑ ڈالر سے 5 گنا بڑھا کر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کردیا تھا جب کہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافے اور بھوک کے بڑھنے کے خدشے نے بدترین سیلاب کے بعد نئے خطرات پیدا کردیے ہیں۔

ملک کی بدترین صورتحال کے پیش نظر یورپی یونین نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے اپنی امداد کو 3 کروڑ یورو تک بڑھا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’یو این کلائمیٹ چینج کانفرنس‘ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق فنانسنگ کا مسئلہ اٹھائیں گے، شیری رحمٰن

پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے باعث بھی درآمدات، قرضوں کی فراہمی اور واپسی کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ اس تمام صورتحال کے باعث پہلے ہی کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر موجود منہگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

سیلاب سے معیشت کو ہونے والے 30 ارب ڈالر کے نقصانات کے تخمینے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی بیرونی قرضوں کی واپسی کے لیے رقم جمع کرنے کی صلاحیت سے متعلق بڑھتے خدشات نے صورتحال کو مزید بدتر کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں