بھارت، روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہم بھی لے سکتے ہیں، وزیر خزانہ

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2022
اسحٰق ڈار نے کہا کہ  اس سال کے دس ماہ میں پورا انتظام ہوگا جس پر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا —فوٹو: ڈان نیوز
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس سال کے دس ماہ میں پورا انتظام ہوگا جس پر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا —فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ان سے تیل لیں اور ہمیں اس سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اگر ہمیں روس سے بھارت کی نسبت کم قیمت پر تیل ملا تو ضرور لیں گے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں تمام بینکر دوستوں کو ساتھ بٹھا کر بات کروں گا اور میڈیا کے دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ لوگوں اور مارکیٹس کو اعتماد دلائیں کہ کوئی فکر کرنے کی بات نہیں ہے نہ ہی کوئی مشکل پیش آئے گی۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کے دائمی وارنٹ معطل، احتساب عدالت نے وطن واپسی پر گرفتاری سے روک دیا

اسحٰق ڈار نے کہا کہ مہنگائی ایک سال میں نہیں بلکہ چار سال میں آئی ہے جس کی شروعات اس وقت ہوئی جب کوئی میکرو اکنامک انتظام نہیں تھا اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔

'جتنا جلدی ہوگا عوام کو مزید ریلیف دیں گے'

وزیر خزانہ نے کہا کہ آنے والے ہفتوں میں لوگوں پر مہنگائی کا بوجھ کم ہوگا کیونکہ یہ کوئی سوئچ نہیں کہ بند کرنے سے مہنگائی ختم ہوجائے گی۔

ڈالر کی قدر میں اضافے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں عدالت ہوں نہ پراسیکیوٹر کہ یہ فیصلہ کروں کہ کس کا قصور تھا مگر جب سب مل کر ٹھیک کرنے پر آئیں تو سب ٹھیک ہوجاتا ہے اور ڈالر کی موجودہ قدر مصنوعی ہے, لہٰذا یہ 200 روپے سے نیچے آئے گا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن: اسحٰق ڈار کی نشست خالی قرار دینے کے کیس میں فیصلہ محفوظ

انہوں نے کہا کہ کچھ ہی دنوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کرکے عوام کو ریلیف دیا ہے اور اب جتنا جلدی ہوگا عوام کو مزید ریلیف دیں گے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ تحریک انصاف یا میرے ساتھیوں نے جو معاہدہ کیا ہے، ہم کوشش کریں گے کہ اس کو پورا کریں۔

'کوشش ہوگی پاکستان کو سودی نظام سے نکالوں'

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو سودی نظام پر چلنا ہے یا اسلامی نظام پر، میری کوشش ہوگی کہ پاکستان کو سودی نظام سے نکالوں کیونکہ ماضی میں بھی ہم نے کافی کاروبار اسلامی نظام پر کیا تھا جس پر ڈپٹی گورنر کی نگرانی میں کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سودی نظام میں تمام اثاثے شامل ہوتے ہیں جس میں باہر کے سفارتخانے، بحری جہاز وغیرہ بھی ہیں اور جب ہم دیوالیہ ہوں گے تو یہ ساری چیزیں جائیں گی مگر جب ہم اسلامی نظام کے تحت ہوں گے تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ ہر ٹرانزیکشن کے نیچے ایک اثاثہ ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بھارت روس سے تیل خرید کر سکتا ہے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہہ تیل خریدیں اور ہمیں اس سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے، اگر ہمیں روس سے بھارت کی نسبت کم قیمت پر تیل ملا تو ضرور لیں گے اور یہ بات واشنگٹن میں موجود حلقوں تک بھی پہنچائی جاچکی ہے۔

'میں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا مگر حقائق پر بات کرنا چاہتا ہوں'

قبل ازیں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ چار سال قبل یہ ملک مختلف تھا، 2013 میں پاکستان میکرو اکنامک کے حوالے سے غیر مستحکم ملک تھا، اور6 سے 7 ماہ میں دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ سے ورچوئلی بطور سینیٹر حلف اٹھانے کیلئے تیار ہوں، اسحٰق ڈار

اسلام آباد میں آل پاکستان چارٹرڈ اکائونٹنٹس کانفرنس سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزان نے کہا کہ اس وقت یہ مسئلہ نہیں تھا کہ کون سی سیاسی جماعت جیتے گی، مگر 2013 میں انتخابات ہوئے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو فتح حاصل ہوئی جس کے بعد یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم غیرمستحکم میکرو معیشت کو درست کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم تھے جبکہ روپے کی قدر بھی گری ہوئی تھی جہاں گزشتہ پانچ سالوں کی معاشی ترقی کی شرح 2 فیصد سے بھی کم تھی۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ہم نے ذمہ داری لی اور ابتدائی 5 دنوں کے اندر ہم نے بجٹ پیش کیا اور بجٹ منظور ہونے کے بعد ہم نے 4 جولائی 2013 کو اہک ہی ماہ میں عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدہ طے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی ملک کی معیشت کی ایسی صورتحال ہو اور آپ اس وقت بھی سوچیں کہ مجھے خودکشی کرنی ہے یا معیشت ٹھیک کرنی ہے یا آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے تو یہ کرنا قوم کے ساتھ بالکل ٹھیک نہیں تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد تین برس میں دنیا نے پاکستان کی معاشی ترقی کی تعریف کی اور مالی سال 2016 اور 2017 میں ہمارے پاس اسٹیٹ بینک میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر تھے جبکہ معاشی ترقی کی شرح 6 فیصد پر پہنچ چکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار نے درخواست واپس لے لی، اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ برقرار

انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ ملک میں سیاسی استحکام کی بات کرتے ہیں، مگر عالمی ادارے نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان 2030 تک دنیا کی 20 ویں عالمی معیشت ہوگی جہاں اطالوی اور کینیڈین ہمارے پیچھے ہوں گے، اس کے علاوہ جوہری صلاحیت کی وجہ سے پاکستان جی-20 کے دیگر 19 اراکین کے ساتھ اجلاس میں شریک ہو سکتا ہے۔

'بجٹ پیش کرنے سے قبل میثاق معیشت پر زور دیتا رہا'

اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ملک کی سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں اور 2030 میں اس مقام تک پہنچنا چاہیے جس کے لیے ہمیں سخت محنت کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جب 14-2013 میں بجٹ پیش کرنے جا رہا تھا تو میں نے ’میثاقِ معیشت‘ پر زور دیا تھا جبکہ 2015 کے بجٹ پر بھی میں نے اسی پر زور دیا تھا مگر یہ خواب مکمل نہ ہو سکا۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ جب 2018 میں جب ہم اقتدار چھوڑ رہے تھے تو مہنگائی کی شرح چار فیصد، اشیاء خوراک کی مہنگائی کی شرح 2 فیصد تھی، ہماری کرنسی مستحکم تھی، 24 ارب ڈالر مالیت کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے، ہماری جی ڈی پی کی ترقی کی شرح 6 فیصد تھی، اس کے بعد پانامہ اور ڈان لیکس جیسے ڈرامے کیے گئے جس سے ہماری معیشت 43 ویں نمبر پر چلی گئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کا مقام کہاں تھا اور اب کہاں پہنچا ہے، میں کسی پر تنقید نہیں کرنا چاہتا مگر میں حقائق پر بات کرنا چاہتا ہوں جن کو عالمی سطح کے دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے۔

'معیشت کو درست کرنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے'

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ملکی معیشت کی ترقی و استحکام کے لیے میثاق معیشت کی بات کی ہے، معیشت کو درست کرنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ملکی معیشت کی ترقی و استحکام کے لیے میثاق معیشت کی بات کی ہے، معیشت کو درست کرنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اتحادی حکومت کو معیشت کے چیلنجوں کا سامنا ہے، ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے اور اس کی ہم نے سیاسی قیمت بھی ادا کی کیونکہ ہماری ترجیح سیاست نہیں ریاست ہے، چارٹرڈ اکائونٹنٹس، ماہرین معیشت اور تمام شعبوں کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے شعبوں میں ملکی معیشت اور ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے جو تباہی آئی ہے اس نے ہماری مشکلات میں اضافہ کیا ہے مگر حکومت اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے۔

'معیشت بہتر ہو جائے اس کے بعد پیرس کلب اور دیگر کے پاس جانا چاہیے'

وزیر خزانہ نے کہا کہ انہوں نے پیرس کلب کے قرضے ری شیڈول نہ کرنے کی بات کی تھی، میں نے وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ یہ صحیح راستہ نہیں ہے، ہمارے اوپر جو واجبات اور ذمہ داریاں ہیں وہ بروقت ادا کرنی چاہئیں کیونکہ اس سے ہماری ساکھ بہتر ہو گی، جب ہماری معیشت بہتر ہو جائے گی تو اس کے بعد پیرس کلب اور دیگر کے پاس جانا چاہیے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی مالیاتی اداروں اور ممالک سے کے جانے والے وعدے پورے ہونے چاہئیں، حکومت کی تبدیلی سے بین الاقوامی ذمہ داریاں اور وعدے تبدیل نہیں ہوتے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام مکمل کیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کے ادارے ہمیں قابل اعتماد سمجھیں۔

'قرضوں کے حوالے سے بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا جا رہا ہے'

وفاقی وزیر نے کہا کہ جب ملک کا وزیر اعظم باہر جا کر بیان دے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے تو پھر ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا، قرضوں کے حوالے سے بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں کم ہے، پیشہ وارانہ ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو سچ بتائیں اور اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے 10 ماہ میں ہمارے بیرونی واجبات 34 ارب ڈالر ہیں جن میں 22 ارب ڈالر کا قرضہ شامل ہے، برآمدات، ترسیلات زر اور دیگر معاونتوں سے ہم اس کو مینج کر سکتے ہیں اس لیے گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے

انہوں نے کہا کہ معیشت کے مسائل حل ہوں گے اور ملک ڈیفالٹ نہیں ہو گا، 1999 میں دھماکوں کے بعد ہمیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر ہم نے محنت کی اور اﷲ نے ہمیں کامیابیاں دیں اس لیے ہمیں اعتماد ہے کہ پاکستان اس مشکل وقت سے نکل جائے گا۔

'موجودہ مہنگائی گذشتہ چار سالہ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کا نتیجہ ہے'

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے سوچ سمجھ کر حکومت قبول کی ہے، موجودہ مہنگائی گذشتہ چار سالہ حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کا نتیجہ ہے، ہم نے معاشی زوال کو روکنا اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا ہے، اﷲ کے فضل سے ہم ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اب مہنگائی کم کرنا، روپے کی قدر میں بہتری اور پائیدار اقتصادی نمو ہمارے اہداف ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے، دورہ واشنگٹن کے دوران ہماری 58 ملاقاتیں ہوئیں، بین الاقوامی اداروں کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے نقصان کا جو اندازہ لگایا ہے وہ 32.4 ارب ڈالر ہے جو ہمارے اندازہ کے قریب ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری کم سے کم ضروریات 16.2 ارب ڈالر ہیں، حکومت سیلاب متاثرین کی معاونت کے لیے اپنے طور پر اقدامات کر رہی ہے، 98 فیصد لوگوں کو نقد امداد دی جا چکی ہے، طویل المیعاد بنیادوں پر ہمیں پائیدار بنیادی ڈھانچہ بنانا ہے اس کے لیے پاکستان کو عالمی معاونت کی ضرورت ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آیا ہے، ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر اس سے ہونے والی تباہی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان سرفہرست کے ممالک میں شامل ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت سیلاب متاثرین کی امداد اور معیشت کے استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے، فرانس کی جانب سے ڈونر کانفرنس کی پیشکش آئی ہے جس کو وزیر اعظم لیڈ کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 2030 کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، فروری 2016 میں جو ایجنڈا بنایا تھا ہمارے اہداف اب بھی اس سے پیچھے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں