ٹرمپ کی رہائش گاہ سے برآمد دستاویزات چین، ایران کی حساس معلومات پر مبنی ہونے کا انکشاف

22 اکتوبر 2022
خفیہ دستاویزات اس وقت برآمد ہوئیں جب ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا—فائل فوٹو : رائٹرز
خفیہ دستاویزات اس وقت برآمد ہوئیں جب ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا—فائل فوٹو : رائٹرز

معروف امریکی جریدے 'واشنگٹن پوسٹ' نے رپورٹ کیا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ سے برآمد ہونے والی خفیہ دستاویزات ایران کے میزائل پروگرام اور چین سے متعلق امریکی انٹیلی جنس ڈیٹا کی معلومات پر مبنی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ خفیہ دستاویزات اس وقت برآمد ہوئیں جب اگست میں ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کا آغاز

'واشنگٹن پوسٹ' کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ’اگر یہ معلومات دوسروں کے ساتھ شیئر کی گئی تو ایسی معلومات کو اکٹھا کرنے کے لیے انٹیلی جنس کے طریقے بے نقاب ہوسکتے ہیں جنہیں امریکا دنیا سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے‘۔

ایک دستاویز میں ایران کے میزائل پروگرام کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جبکہ دوسری دستاویزات میں چین کے بارے میں انتہائی حساس انٹیلی جنس معلومات موجود ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 8 اگست کو ایف بی آئی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر کی تلاشی کے دوران کچھ انتہائی حساس مواد برآمد ہوا، تقریباً 13 ہزار دستاویزات قبضے میں لی گئیں جن میں سے 103 کلاسیفائیڈ اور 18 ٹاپ سیکریٹ تھیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے پہلے رپورٹ دی تھی کہ ایف بی آئی کی تلاش کے دوران ضبط کی گئی دستاویزات میں سے ایک میں ملک کی فوج کی دفاعی اور جوہری صلاحیت کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جن لوگوں نے یہ اطلاع دی انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ معلومات ایران، چین یا کس اور ملک سے متعلق تھیں۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کے دوران خفیہ دستاویزات ضبط

امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کافی مواد موجود ہے لیکن اس نے ابھی تک اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

ایف بی آئی کی جانب سے ضبط کی گئی دستاویزات میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں اعلیٰ سطح کے تجزیاتی کاغذات شامل ہیں، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق ضبط شدہ دستاویزات میں سے کچھ ایسی خفیہ امریکی کارروائیوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جن کے بارے میں قومی سلامتی کے بہت سے اعلیٰ حکام کو بھی مطلع نہیں کیا گیا۔

صرف صدر، ان کی کابینہ کے کچھ اراکین یا کابینہ کی سطح کے برابر حکام ہی سرکاری عہدیداروں کو ان خصوصی پروگراموں کی تفصیلات جاننے کا اختیار دے سکتے ہیں۔

محکمہ انصاف کے ایک سابق سینئر عہدیدار ڈیوڈ لوفمین نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ ’امریکی انٹیلی جنس کی صلاحیتوں اور طریقوں کا لاپرواہی کے سبب بے نقاب ہونا یقیناً محکمہ انصاف کے اس فیصلے کو متاثر کرے گا کہ ڈونلڈ ٹرمپ یا دیگر افراد پر قومی دفاعی معلومات کو جان بوجھ کر قبضے میں لینے کا الزام عائد کرنا ہے یا نہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کی 'ذاتی طور پر منظوری دی'، اٹارنی جنرل

ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2022 میں حکومت کو 15 ڈبے واپس کیے تھے، ان کی جانچ سے معلوم ہوا کہ ان میں موجود 184 دستاویزات کلاسیفائیڈ تھیں جبکہ 25 ٹاپ سیکرٹ تھیں۔

تاہم امریکی حکام نے محکمہ انصاف کو مطلع کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پاس موجود تمام خفیہ مواد کو واپس نہیں کیا ہے، جون میں ڈونلڈ ٹرمپ کے معاونین نے ایک مہر بند لفافہ حوالے کیا جس میں 17 ٹاپ سیکریٹ دستاویزات سمیت مزید 38 خفیہ دستاویزات شامل تھیں۔

سیکیورٹی کیمرہ فوٹیج میں دیکھا گیا کہ اسٹوریج ایریا سے بکس لے جائے جا رہے ہیں، ایک اہم گواہ نے ایف بی آئی کو بتایا کہ اس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر بکسوں کو منتقل کیا۔

لیکن سابق امریکی صدر کا اصرار ہے کہ ان کے اقدامات قانونی تھے، انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں ’فاکس نیوز‘ کو بتایا کہ اگر آپ امریکا کے صدر ہیں تو آپ کے صرف ’ڈی کلاسیفائیڈ‘ کہہ دینے سے یہ دستاویزات ڈی کلاسیفائی ہوسکتے ہیں، آپ صدر ہیں، یہ فیصلہ آپ ہی کرتے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں