امید کرتے ہیں گیٹ نمبر 4 کا رخ کرنے کے بجائے اپوزیشن پارلیمان میں ہوگی، بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2022
بلاول نے کہا یہ پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے ایک ترقی ہے کہ پارلیمان کے ذریعے وزیر اعظم کو گھر بھیجا — فوٹو: ڈان نیوز
بلاول نے کہا یہ پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے ایک ترقی ہے کہ پارلیمان کے ذریعے وزیر اعظم کو گھر بھیجا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آگے جو بھی وزیر اعظم آتا ہے، عدالت کے دروازوں کو کھٹکھانے کے بجائے اور گیٹ نمبر 4 کی طرف رخ کرنے کے بجائے ہم امید رکھتے ہیں کہ اپوزیشن پارلیمان میں ہوگی، اور اگر کسی وزیراعظم کا احتساب کرنا ہے تو وہ جمہوری طریقے سے ہو گا۔

لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو شاید اس نتیجے پر پہنچیں کہ سب اچھا نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت ہی ضروری ہے کہ جہاں جہاں جمہوری قوتوں، پارلیمان اور اداروں نے ترقی کی ہے، ہمیں اس کو نوٹ کرنا چاہیے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پارلیمان اور جمہوریت کی ترقی کے لیے یہ کافی بڑی کامیابی ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان وہ پہلا وزیراعظم ہے جو پارلیمان کے اندر سے آئینی عدم اعتماد کی صورت میں گھر بھیجا گیا، ہمیں اس نکتے کو نمایاں کرنا چاہیے کہ ایک وزیر اعظم کو ہٹا کر دوسرے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کا ایک ہی قانونی آئینی طریقہ ہے، اور وہ عدم اعتماد کا طریقہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نوجوان قیادت کے لیے تیار ہے، عمران خان کو ریٹائرمنٹ پر بھیجیں گے، بلاول بھٹو زرداری

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے سلیکٹڈ وزیراعظم کو جمہوری طریقے سے گھر بھیجا، اس سے پہلے وزرائے اعظم کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، ماضی میں یا تو جلا وطن کیا گیا، یا پھر پھانسی کے پھندے پر چڑھنا پڑا یا پھر خودکش حملوں میں شہید ہوئے، یا عدالت سے فیصلہ آیا یا پھر گیٹ نمبر 4 سے فیصلہ آیا اور اس نے وزیر اعظم کا بندوبست کیا، لہٰذا یہ پاکستان کے جمہوری نظام کے لیے ایک ترقی ہے کہ پارلیمان کے ذریعے وزیر اعظم کو گھر بھیجا۔

ان کا کہنا تھا کہ آگے جو بھی وزیر اعظم آتا ہے، عدالت کے دروازوں کو کھٹکھانے کے بجائے، گیٹ نمبر 4 کی طرف رخ کرنے کے بجائے ہم امید رکھتے ہیں کہ اپوزیشن پارلیمان میں ہوگی، اور اگر ہم نے کسی وزیراعظم کا احتساب کرنا ہے تو وہ جمہوری طریقے سے ہو، وہ عدم اعتماد سے ہو۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کی یاد میں چار سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، وہ پاکستان کے ترقی پسند وکلا، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے ایک رول ماڈل تھیں، وہ میرے لیے بھی ایک رول ماڈل ہوتی تھیں، وہ وقتاً فوقتاً میری رہنمائی بھی کرتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں آج پاکستان کا وزیر خارجہ بن کر آج ان سے مل رہا ہوتا تو میرے خیال میں سب سے پہلے وہ مجھ سے پوچھتیں کہ بلاول آپ ڈیل کرکے تو وزیر خارجہ نہیں بنے؟ میں خوشی سے عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو یقین دلاتا کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: اقوامِ متحدہ میں پاکستان سے متعلق قرارداد کی منظوری پر وزیر خارجہ کا اظہارِ تشکر

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی سیاسی جماعتوں نے سیاسی قیمت ادا کی مگر پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، اور پاکستان کے عوام کو مزید مشکلات سے بچایا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جیسے ہی ہم نے عمران خان کے خودکش حملے سے پاکستان کو بچایا تو قدرتی آفت کی صورت میں تاریخی مون سون بارشوں اور سیلاب نے پاکستان کے عوام کو ایک اور امتحان میں ڈال دیا، آج تک سندھ اور بلوچستان کے متعدد ایسے علاقے ہیں جو زیر آب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی سیاست اور میڈیا میں اولین ترجیح سیلاب اور سیلاب متاثرین ہونے چاہئیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے وہ پائلٹ پروجیکٹ بنائیں گے کہ جب ہم تعمیر نو کے مرحلے میں داخل ہوں گے، جب ہم زرعی اور آبپاشی کے نظام کو دوبارہ کھڑا کر دیں گے، اور کوشش کریں گے کہ اس ترقی کا فائدہ ان علاقوں کے مقامی لوگوں کو پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب کے متاثرین اور موسمیاتی آفت کے بارے میں ایکشن کے حوالے سے ہمیں ایک صفحے پر آنا پڑے گا، اور ہم اتفاق رائے پیدا کرکے اس مسئلے سے نکل سکتے ہیں، میری اپیل ہے کہ دیگر سیاسی معاملات چلتے رہیں گے، سیلاب متاثرین کو نہ بھولیں، وہ آج بھی کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جرمنی کا سیلاب متاثرین کیلئے ایک کروڑ یورو کی امداد کا اعلان

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک جمہوری اور آئینی سفر کی بات ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ جو بھی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں حصہ لے رہے ہیں، ہم سب متحد ہو کر پاکستان میں جمہوریت کا دفاع کریں گے، پاکستان کے پارلیمانی نظام کا دفاع کریں گے، اور یقینی بنائیں کہ آگے جاکر اپنی نئی نسل کو مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی سے بچا سکیں گے جس کا آج ہم مقابلہ کر رہے ہیں۔

انہوں کہا کہ پاکستان میں سیاسی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جارہا ہے، اسی طرح بھارت، یورپ اور امریکا میں بھی سیاسی انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جارہا ہے، اگر پاکستان کے سیاسی انتہا پسند کے نشانے پر اسلام آباد اور اسلام آباد کا گھیراؤ ہے تو امریکا میں بھی انتہا پسندوں کے نشانے پر واشنگٹن ڈی سی اور جمہوری نظام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نئی نسل سے امید کرتے ہیں کہ وہ سچ کا ساتھ دیں گے، وہ ترقی اور جمہوریت کا ساتھ دیں گے اور انتشار، انتہا پسندی اور ایک آدمی کی انا کو رد کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں