عمران خان نے اداروں کے افسران کو اپنے ہدف پر لیا ہوا ہے، رانا ثنااللہ

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2022
رانا ثنااللہ نے ایف آئی اے کے افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز
رانا ثنااللہ نے ایف آئی اے کے افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے عمران خان نے اداروں کے افسران کو ہدف پر لیا ہوا ہے لیکن اب فیصلہ ہوا ہے جھوٹ کو اسی وقت دبانا چاہیے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’اعظم سواتی نے ایک پریس کانفرنس کی ہے، جس میں انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر الزام لگایا ہے کہ انہیں گرفتار کرکے کسی اور کے حوالے کردیا اور اس نے تشدد کیا‘۔

مزید پڑھیں: مجھ پر تشدد و زیادتی کے ذمہ دار رانا ثنااللہ یا موجودہ حکومت نہیں، اعظم سواتی

انہوں نے کہا کہ ’کسی اور کی بات تو بعد میں آتی ہے سب سے پہلے بات تو ایف آئی اے کی ہے، اگر ایف آئی اے ایک مقدمہ درج کرے، اس کے بعد گرفتار کرکے یا کارروائی کرے اور پھر کسی اور کے حوالے کرتا ہے تو بنیادی طور پر ذمہ داری ایف آئی اے کی ہے، اگر ایف آئی اے کی ہے تو پھر وزارت داخلہ ذمہ دار ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر میں نے پہلے بھی پوری انکوائری کی تھی، وہ انکوائری زبانی تھی کیونکہ مجھے کوئی درخواست، شکایت موصول نہیں ہوئی تھی، نہ ہی عدالت یا کسی اتھارٹی کی جانب سے وزارت کو کوئی شکایت موصول ہوئی کہ اس معاملے پر انکوائری کریں‘۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’آج صبح اس میں ایک نیا رخ آیا کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے یہ بات نہیں کی تھی تو میں نے دوبارہ اس پارٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز کو بلایا اور تفصیلاً پوچھا اور ساتھ ہی سائبر کرائم کے سربراہ ڈاکٹر وقارالدین سید کو بھی بلایا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس عمرانی فتنے کے جو کردار ہیں، جنہوں نے اس ملک کو فتنے اور فساد سے دوچار کرنے، ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلانے، قوم کو تقسیم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا ملک دشمن ایجنڈا اپنالیا ہے اور اس کے لیے مختلف رنگ اور حکمت عملی اختیار کرتےہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: خان صاحب یہ کیا ہے، کوئی ادارہ آپ کے سیاسی کام نہ کرے تو اسے غدار ڈیکلیئر کر دیں، قمر زمان کائرہ

سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’چند دنوں سے اداروں کے افسران کو اپنے ہدف پر لیا ہوا ہے، اب اس کا ایک حل یہ ہے کہ ان کی اس گفتگو کا جو آئین اور قانون اور اخلاقیات کے ذمرے میں نہیں آتی ہے تو اس کو نظر انداز کیا جائے لیکن ایک مضبوط رائے تھی کہ یک طرفہ جھوٹ مسلسل بولا جاتا ہے تو بعض صورتوں میں سچ کی صورت اختیار کرلیتا ہے، اس لیے جھوٹ جب بولا جائے اسی وقت وہاں پر دبانا چاہیے اور اسی وقت سچ کو سامنے لانا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سچ کو جھوٹ کے مقابلے میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور سامنے آنا چاہیے، لوگوں میں شعور ہوتا ہے وہ سچ اور جھوٹ میں پہچان کرلیتا ہے‘۔

راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’اب فیصلہ ہے کہ اب جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں کہ برے کو اس کے گھر تک چھوڑ کر آنا چاہیے، اب ان تمام فتنہ کے کرداروں کو، جب بھی فتنہ گری کرے گا اس کے مقابلے میں جھوٹ کے مقابلے میں سچ لوگوں میں پیش کیا جائے گا‘۔

اعظم سواتی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بزرگ آدمی ہیں سینیٹر بنے ہیں اور کس طرح سینیٹر بنے ہیں اس پر میں نہیں جانا چاہتا، یہ ٹوئٹ کرتے ہیں، جس میں ایک تصویر کے ساتھ کہتے ہیں شہباز شریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس میں بری اور اس کی مبارک باد باجوہ کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ ٹھگ ارو کریمنل بری ہوتے رہے تو آپ نے کرپشن کو قانونی بنایا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر عدالت تمہیں بری کرے تو عین انصاف ہے، اگر عدالت رات کو 9 بجے کھلے اور تمہیں ریلیف دے کر گھر بھجوائے تو انصاف ہے، اگر عدالت اتوار کو کھل کر تمہیں ضمانت قبل از گرفتاری دے اور پیش ہونے کی زحمت بھی نہ دے تو عین انصاف ہے اور وہی عدالت اگر ہمیں تمہارے بنائے ہوئے جھوٹے کیسز میں ہمیں بری کرے تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگیا اور ملک کو نقصان ہوگیا‘۔

مزید پڑھیں: ڈی جی آئی ایس پی آر نے غلط بیانی کی کہ ارشد شریف کو خطرہ نہیں تھا، شیریں مزاری

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کی سوچ ہے اور عمرانی خمیر کی بنیاد اس سوچ پر رکھی گئی ہے کہ عدالت ہمارے لیے چھٹی کے دن کھلے تو ٹھیک ہے لیکن دوسروں کے لیے کھلے تو غلط ہے‘۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’حمزہ شہباز دو سال جیل کاٹ کر بری ہوتو بڑا ظلم ہوگیا، شہباز شریف تین مرتبہ ملا کر 14 یا 15 مہینے جیل میں رہ کر ان کیسز میں بری ہو تو ظلم ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر اس بنیاد پر کہ جس معاملے پر نیب میں چل رہا ہو، وہی مقدمہ ایف آئی اے پر نہیں چل سکتا لیکن اسی پر مونس الہٰی کا کیس ختم ہوتو ان کو نظر نہیں آتا اور اگر حمزہ شہباز یا شہباز شریف کو ریلیف ملے تو ظلم ہے‘۔

’ٹوئٹ میں دو اداروں پر الزام عائد کیا گیا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے جو ٹوئٹ کی، اس میں دو اداروں پر الزام عائد کیا گیا، عدلیہ کی تضحیک کی گئی کہ آپ کسی اور کے کہنے پر لوگوں کو بری کرتے ہیں، انصاف فراہم نہیں کرتے بلکہ کسی اور کہنے پر بری کرتے ہیں اور دوسرا ادارہ جس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پر بھی الزام ہے کہ مداخلت کرکے بری کروایا‘۔

راناثنااللہ نے کہا کہ ’اس پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا اور عدالت میں پیش کیا تو میڈیکل کا حکم دیا، 4 ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور اس کے نتیجے میں انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ قرار دیا اور اس قسم کے واقعے کا امکان رد کردیا‘۔

اعظم سواتی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ اس کے بعد ریمانڈ پر ایف آئی اے کے پاس رہے، پہلا میڈیکل 13 اکتوبر، دوسرا 15 اکتوبر اور تیسرا 16 اکتوبر کو ہوا، ایف آئی اے میں ان کو عزت اور احترام دیا گیا تقریباً روزانہ میڈیکل ہوا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ایک ادارے کے دو ذمہ دار افسران کے خلاف یعنی عمرانی فتنے کی حکمت عملی کے تحت الزام لگا رہے ہیں اور ایف آئی اے نے ان کے سپرد کیا تھا اور انہوں نے تشدد کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر سائبر کرائم ٹیم نے کوئی تجاوز کیا تو سائبر کرائم کے سربراہ کو کسی نے کوئی درخواست نہیں دی، وزارت داخلہ یا کسی عدالت میں تاحال کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ زیادتی ہوئی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو اپنے بندوں کو ننگا کرنے میں کیا حکمت عملی ہے، ہر کسی کو ننگا کررہا ہے اور ہر کسی کے ساتھ جنسی تشدد کروارہا ہے، میرا خیال ہے سواتی صاحب نے محنت کی ہے میرے ساتھ یہ کام نہ کروائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سنا ہے شیخ رشید صاحب نے بھی بڑی منت کی ہے کہ میں اگر پکڑا جاؤں تو تشدد تک رکھیے گا، اس سے آگے نہیں جائیں، تشدد کی کوئی میڈیکل رپورٹ موجود نہیں، انکوائری کرواتے ہیں، رٹ نہیں کرتے اور کسی عدالت کو نہیں کہتے ہماری انکوائری کریں، صرف پراپیگنڈا کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اداروں کے افسروں کے نام لیتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ ان کی گیدڑ بھبکیوں اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے رک جائیں گے‘۔

عمران خان کانام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ ’آپ اس بات پر تل چکے ہیں ملک کو فتنہ اور فساد کے حوالے کرنا ہے، افراتفری اور انارکی میں لے کر جانا ہے تو پھر آپ کو پتا ہے کون سے ادارے اور کون سے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کی راہ میں حائل ہوں گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کی گھٹیا حکمت عملی ہے کہ بغیر کوئی قانونی عمل کے اس طرح کا پروپیگنڈا کریں لیکن اس کو بالکل ہر سطح پر جواب دیا جائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جو عمران خان کہتا ہے اسی پر سارے لگ جاتے ہیں، کسی کی جرات نہیں کہ آپ غلط بات کر رہے ہیں اور یہ بات ملک اور قوم کے حق میں نہیں ہے، بس جو اس نے کہہ دیا تو یہ بے لباس بھی ہوتے ہیں اور مظلوم بھی بن جاتے ہیں‘۔

’الزامات کی پرزور تردید‘

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ان کے الزامات کی پرزور الفاظ میں تردید کرتا ہوں کہ ایف آئی اے نے ایک انتہائی قابل اعتراض ٹوئٹ پر درست مقدمہ درج کیا اور اس کی پاداش میں بالکل قانونی اور تمام عمل مکمل کرکے گرفتار کیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’گرفتاری کے دوران یہ ایف آئی اے کی حراست میں رہے، کسی نے ان کی حوالگی نہ مانگی اور نہ ان کو کسی کے حوالے کیا اور دوران حراست ان کی عزت اور احترام کا پوری طرح خیال رکھا گیا، گھر کا کھانا ملتا رہا، دوائیں فراہم کی جاتی رہیں اور ہر طرح سے خیال رکھا گیا لیکن قانون کے مطابق چالان کیا گیا اور کارروائی ہوئی‘۔

’ریڈزون ہماری ریڈ لائن ہے‘

وفاقی وزیرداخلہ نے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ کیا یہ لانگ مارچ ہے، عمران خان خود اپنے الفاظ میں پھنس گیا ہے،کسی کو ڈرانا، دھمکانا چاہا، پہلے مارچ میں بھی اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا چاہی لیکن ناکام ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب دوبارہ ڈرا دھمکا کر انتخابات کی تاریخ لینا چاہتا تھا، اس کے لیے تقاریر کی، جلسوں میں نیوٹرلز، کبھی میرجعفر، میر صادق کہا، پھر لانگ مارچ کی دھمکی دی تھی تو اب جب ساری چیزیں بے کار گئیں تو ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، اشوک شوئی کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا۔

انہوں نے کہا کہ اجس طرح کا لانگ مارچ شروع کیا ہے اور شروع میں عوام کے ساتھ جو وعدہ کیا ہے کہ ہم عدالت کے مقرر اور متعین کردہ جگہوں پر جائیں گے، ریڈ زون میں نہیں جائیں گے اور ان جگہوں پر ہی بیٹھ کر احتجاج کریں گے تو ہم اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں، اگر عوام کے ساتھ کیا گیا وعدہ درست ہوا تو پھر تو ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ریڈ زون ہماری ریڈ لائن ہے اور احتجاج ہر کسی کا حق ہے اور وہ احتجاج کریں کسی کو روکا نہیں جاسکتا۔

لانگ مارچ کے دوران دہشت گردی کے خدشات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس رپورٹس ہیں کہ دہشت گرد اس صورت حال سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور ملک کو انارکی اور افراتفری کی طرف دھکیل سکتے ہیں، تسلسل کے ساتھ ایجنسیاں رپورٹ کر رہی ہیں۔

وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا یہ فرض ہے کہ اداروں اور اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کا دفاع کرے، ہم نے پھر پور کوشش کی ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر یہ فیصلہ ضرور ہوا ہے کہ اداروں کا دفاع حکومت کرے گی لیکن جس پر الزام لگائیں گے دفاع وہ خود کرے گا، جھوٹ کو یک طرفہ طور پر لوگوں کے پاس جانے نہیں دیا جائے گا اور عوام کو سچ بتادیا جائے گا۔

صحافی چوہدری غلام حسین کی گرفتاری سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ چوہدری غلام حسین کی گرفتاری کا علم نہیں ہے، اس معاملے کو دیکھوں گا اگر گرفتاری ہوئی ہے تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق رویہ روا رکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ قطعاً ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں ہوگی اور میں ذاتی طور پر اس کو یقینی بناؤں گا۔

صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل میں خرم احمد اور وقار احمد کے عمل دخل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال ہے کہ اس الم ناک واقعے کے بعد ان کے کسی عزیز یا گھر والوں کو اطلاع دینے کے بجائے کسی اور کو کیوں اطلاع دی گئی، ہماری کمیٹی وہاں پہنچ رہی ہے اور اگلے دو دن میں ساری معلومات لے کر آئے گی۔

وزیر داخلہ نے ایک سوال پر کہا کہ کل ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس میں عام لوگوں کو بڑی تسلی ہوئی ہے کیونکہ لوگوں بہت ساری چیزوں کا علم ہی نہیں تھا اور پھر متعلقہ لوگوں سے کوئی معلومات ملتی ہیں تو وہ اثر رکھتی ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان کی دھمکیوں کی مجھے یا ڈی جی آئی ایس آئی کا کیا بگاڑنا ہے، وہ تو اپنی عادت سے مجبور ہے اور اس قسم کی باتیں کرتا ہے، اس لیے میں اس کو سنجیدہ نہیں لیتا اور امید ہے ڈی جی آئی ایس آئی پر بھی ان چیزوں کا کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ با لکل واضح ہے کہ ایسے کوئی حالات نہیں تھے کہ ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر جاتے ، یہ بات وہ خود بھی جانتے تھے اسی لیے وہ جانے کے لیے تیار نہیں تھے ، ان کو خوفزدہ کرنے کے لیے ایک فرمائشی تھریٹ الرٹ جاری کرایا گیا اور انکوائری کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دبئی سے نکالنا اور لازمی طور پر کینیا بھیجنا زیادہ اہمیت کی حامل بات ہے، اس کے کردار سامنے آرہے ہیں، اب ان کرداروں اور مرکزی کردار نے حکمت عملی اپنائی ہے کہ چور چور کا اتنا شور مچادو کہ چور کی شناخت ہی نہ رہے اور اس معاملے پر اتنا گند ڈال دو کہ کسی کو خبر نہ رہے کہ یہ بات کہاں جا رہی ہے لیکن سمت متعین ہو رہی ہے۔

اعظم سواتی کی کسی نامعلوم فرد سے ملاقات نہیں کرائی، ایف آئی اے

اس موقع ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم اسلام آباد ایاز نے کہا کہ میری سربراہی میں پولیس کے ساتھ ٹیم ان کے گھر گئے اور شناخت کے بعد بتایا کہ اعظم سواتی کی گرفتاری کے لیے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے لیے ہم 45 سے 50 منٹ تک ان کے دروازے پر انتظار کرنا پڑا، وہ اپنے گھر کے اندر موجود نہیں تھے، ہمیں ڈھونڈنے کے لیے ایک گھنٹا لگا، ایک کھائی میں گدا تھا جہاں وہ چھپ کر لیٹے ہوئے تھے اور وہاں سے ان کو باقاعدہ گرفتار کرلیا۔

ایف آئی اے افسر نے کہا کہ گرفتاری سے لے کر دفتر پہنچنے تک ان کی کسی نامعلوم فرد سے ملاقات نہیں ہوئی اور اس دوران ان کا ملازم گھر سے کھانا لے کر آتا رہا ہے اور ان کی ملاقات بھی ہوتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران بالکل کسی اور سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے محمد ایاز نے بتایا کہ یہ واضح بات ہے کہ اعظم سواتی گھر کے اندر نہیں باہر چھپے ہوئے تھے اور ہم وہی سے ان کو گرفتار کرکے لائے تھے، نہ پوتیوں کے سامنے لے کر گئے اور نہ گھر کے اندر لے کر گئے ہیں اور تشدد والی کوئی بات نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں