پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر رہنما شیریں مزاری نے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹرجنرل (ڈی جی) کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ارشد شریف کے حوالے سے غلط بیانی کی ہے۔

لاہور میں وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ 'کافی لوگوں کو پتا ہے کہ ارشد شریف کے ساتھ میرا بہت پرانا تعلق تھا، میرے بیٹے کی طرح اور چھوٹا بھائی بھی کہہ لیں'۔

مزید پڑھیں: اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں؟ ڈی جی آئی ایس آئی

انہوں نے کہا کہ 'کینیا میں قتل سے 3 دن پہلے میری ارشد شریف سے بات ہوئی، ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو کہا اس پر بڑا افسوس ہوا کیونکہ بڑی غلط بیانی تھی، ایک شخص کا بدترین قتل ہوا اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا، میرے ساتھ رابطے میں تھا اگر خطرہ ہوتا تو مجھے بتادیتا'۔

شیریں مزاری نے کہا کہ 'فون پر میری پوری گفتگو ہے، ارشد کے ساتھ ظلم اور تشدد کیا گیا، پاکستان میں اس کو دھمکیاں ملی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ '26 اگست کو ٹوئٹر میں پیغام بھیجا تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے میرے پیچھے قاتل بھیج دیے ہیں اور یہ اس نے وہاں جانے سے پہلے بھی ایک دفعہ کہا تھا کہ میرے سر کی قیمت رکھی گئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس نے کہا کہ قتل کی دھمکی دی، عمران خان بھی اس سے آگاہ ہیں اور مجھے آگاہ بھی کیا، مقامی اور بین الاقوامی دو کھلاڑی ہیں لیکن یہ کہنا ایک شخص نے فوج پر اتنی ویڈیوز اور پروگرام کیے ہوں، اتنی انہوں نے قربانیاں دی ہیں اور آپ بیٹھ کر کہہ رہے ہیں ارشد شریف کو کوئی خطرہ نہیں تھا'۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ 'ان کے خاندان میں غازی اور شہید بھی بہت ہیں ہم نے ان کی عزت کرتےہیں، خیر عزت تو آپ نے کیا دکھائی، اس کی شہادت آپ نے کروادی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس کا بدترین ٹارگٹڈ قتل جس نے بھی کروایا وہ وہی ہیں جنہوں نے دھمکی دی اور اب ہمارے ادارے کہہ رہے ہیں کوئی دھمکی ہی نہیں تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس اور بھی شواہد ہیں، عدالتی کمیشن بنے، حالانکہ کمیشن بنے ہیں، حامد میر کو گولیاں لگنے پر بڑا طاقت ور کمیشن بنا تھا پتا نہیں اس کی رپورٹ کہاں چلی گئی'۔

شیریں مزاری نے کہا کہ 'ارشد شریف کے ساتھ اس طرح نہ کریں کہ اس کی شہادت متنازع بنائیں، اس پر سوالات اٹھائیں جب وہ شخص جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف قتل: ادارے پر الزام تراشی سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے تحقیقات ہونی چاہیے، پاک فوج

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس بہت سے ثبوت ہیں، اس کے سارے بیانات ہیں'۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ 'آج ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی، میں کبھی ایم آئی6 کے ڈائریکٹر کو پریس کانفرنس کرتے نہیں دیکھا حالانکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے برطانیہ کے وزرائے اعظم کا حوالہ دیا کیسے بدلتے ہیں تو اس میں ذرا فرق ہے'۔

پریس کانفرنس میں معاملات سلجھانے کے بجائے نیا پنڈورا بکس کھول دیا گیا، شاہ محمود قریشی

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پریس کانفرنسز میں معاملات سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیے گئے ہیں اور ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے لاہور میں پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز
پی ٹی آئی رہنماؤں نے لاہور میں پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز

لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'دو پریس کانفرنسز ہوئیں جس میں ہماری نظر میں معاملات سلجھانے کے بجائے مزید الجھا دیے گئے ہیں اور ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آج جو پریس کانفرنس ہوئی اس کا ماخد یہی تھا کہ ادارے نے فیصلہ کیا کہ وہ غیر سیاسی رہے گا اور سب کی یہی خواہش رہی ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے تو آسان رہے گی اور مشکلات پیدا نہیں ہوگی اور اگر ایسا ہوتا پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کل ہمارے ایک ساتھی، جن کی رکنیت معطل کردی گئی ہے، نے جانتے ہوئے کہ تحریک انصاف کی بڑی واضح پالیسی رہی ہے کہ ہمارے جتنے بھی احتجاج ہوئے ہیں وہ پرامن ہوئے ہیں’۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی سازش پاکستان میں ہوئی، ثبوت مٹا دیے گئے، فیصل واڈا

انہوں نے کہا کہ 'ہماری پالیسی بڑی واضح ہے کہ ہمارا مارچ پرامن ہے، قانون کے دائرے کے اندر ہوگا، قانون کے تقاضوں کا احترام کرتے رہیں گے، کل کی پریس کانفرنس صرف لوگوں میں ایک خوف پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'کل کی پریس کانفرنس ایک مذموم کوشش تھی جو ہماری نظر میں ناکام رہی کیونکہ اس کا پول کھل گیا، جس طرح انتظام کیا گیا تھا جو چینل کوریج نہیں دیتے پی ٹی وی بالخصوص مہربان رہا اور پوری کوریج دی گئی اور کڑی سے کڑی مل گئی اور پول کھل گئی کہ اس کے پیچھے کون سی قوت تھی اور سوچ کیا کار فرما تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی اور کہا جا رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کسی قیمت قبول نہیں ہوگا تو ہم سیاسی عدم استحکام کے خواہاں نہیں ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سیاسی عدم استحکام اس دن شروع ہوا، جس دن عدم اعتماد کے ووٹ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی، پھر کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی، جس سے ہماری سیاست اور ہماری معیشت پر جو اثر پڑا سب کے سامنے ہے'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'عدم استحکام ہم نے پیدا نہیں کیا بلکہ ہم اس کا حل پیش کر رہے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ عدم استحکام آچکا ہے، ملک میں اس وقت عدم استحکام کی کیفیت رونما ہو چکی ہے، ہم اس کا ایک جمہوری حل پیش کر رہے ہیں وہ ہے انتخابات، جس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گی اور گومگو کی صورت حال ختم ہوجائے گی'۔

انہوں نے کہا کہ 'سائفر کا ذکر آیا کہ یہ ایک من گھڑت بیانیہ ہے، ہر گز نہیں، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ سائفر ایک حقیقت تھی اور حقیقت ہے، ذکر کیا گیا کہ کامرہ میں اس کا تذکرہ ہوا تو اس نشست میں اسد عمر، عمران خان اور میں بھی موجود تھا، اہم شخصیات موجود تھیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب سائفر اور اس کی سنجیدگی کا ذکر آیا تو ہمیں کہا گیا یہ بالکل سیریس مسئلہ ہے اور اس پر ڈیمارش ہونا چاہیے، پھر اس کی اہمیت سامنے رکھتے ہوئے قومی سلامتی کمیٹی کا ایک سے زیادہ اجلاس بلائے گئے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر وہ حقیقت نہیں تھی اور اگر وہ ایک من گھڑت کہانی تھی تو ڈیمارش کی ضرورت کیا تھی، پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ سیاسی مداخلت ہوئی ہے، پھر تو اس کا تذکرہ اٹھتا ہی نہیں ہے'۔

سابق وزیرخارجہ نے کہا کہ 'یہ بھی تاثر دیا گیا کہ ہم نے اپنے سفیر اور ان کے بیانیے کو سیاسی مقاصد کے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی تو ہر گز نہیں، سفیر نے دیانت داری سے واشنگٹن میں جو نشست ہوئی اس کو ریکارڈ کی اور سائفر اس کی ترجمانی کر رہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سفیر کہہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے سفارتی تجربے میں اس قسم کی زبان استعمال ہوتے دیکھی نہیں ہے، اس میں دھمکی تھی، ایسی زبان استعمال کی گئی جو سفارتی نہیں تھی اور ناقابل قبول تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'سفیر کی رائے میں وہ گفتگو اس نوعیت کی تھی کیونکہ انہوں نے ڈیمارش کی تجویز دی تھی اور اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا ڈیمارش کیا جائے، اگر سائفر پر ہم نے بیانیہ گھڑا تو یہ حقیقت کے برعکس ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کوئی ایسا بیانیہ نہ گھڑیں گے اور نہ گھڑا ہے، جس سے پاکستان کو نقصان ہو یا پاکستان کے کسی ملک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں، یہ ہماری ہرگز نیت نہیں تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف نے بحیثیت ایک جماعت کے ہم نے ہمیشہ اداروں کا احترام اور دفاع کیا ہے، ہر موڈ پر کیا ہے، ہم سجھتے ہیں اداروں کے مضبوط ہونے سے نہ صرف جمہوریت مضبوط ہوتی ہے بلکہ ملک مضبوط ہوتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: کوئی کچھ بھی کہے، مجھے پتا ہے ارشد شریف کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ کی گئی ہے، عمران خان

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'یہ تاثر دینا کہ خدانخواستہ ہم کسی ادارے کے درپے ہیں یا اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں یہ حقیقت کے برعکس ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ہمیشہ ان کی قربانیوں کا ادراک کیا ہے، دہشت گردی کی جنگ میں ملک کو محفوظ کرنے میں کردار ادا کیا ہے، ہم نے اس کی تعریف کی اور تسلیم کیا ہے، کورونا اور سیلاب میں آتے ہیں تو اس کردار کی تعریف کی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی بات کی گئی لیکن ہماری سوچ اس کے برعکس ہے اور ہم نے کبھی ایسی غیرذمہ دارانہ نعرے بازی نہیں کی'۔

وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 'ملاقاتوں کا حوالہ دیا گیا، ان ملاقاتوں کا مقصد کیا تھا، کیا ہماری کوئی غیرآئینی فرمائش یا کوئی ایسا مطالبہ کیا جو جمہوری قدروں یا آئین کے برعکس ہو، ہر گز نہیں، بارہا کہتے رہے ایک نکاتی ایجنڈا ہے ہمارا، وہ ہے ملک میں شفاف اور غیرجانب دارانہ انتخابات'۔

ادارے کو انتخابات کیلئے اثر و رسوخ استعمال کرنے کو کہنا غیرآئینی نہیں، اسد عمر

پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے کہا کہ 'عمران خان نے کبھی پاکستان کی فوج کے خلاف باتیں کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن عمران خان فوج کے ایسے فیصلے یا ایکشنز جن پر تنقید کرتے ہیں تو وہ بالکل کرتے ہیں اور یہ ان کا آئینی حق ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ذرا پیچھے ہٹ کر ضرور دیکھنا چاہیے کہ شاید دونوں طرف کچھ سوچنے کی ضرورت ضرور ہوگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'فوج اپنے آئینی کردار میں رہنا چاہتی ہے تو بہت اچھی بات اور ملک کے لیے بڑی اچھی خبر ہے کہ فوج نے فیصلہ کیا ہے اپنے آئینی کردار میں رہنا چاہتے ہیں'۔

اسد عمر نے کہا کہ 'آرمی چیف سے ملاقاتوں میں غیرآئینی کیا مطالبہ کیا گیا جو مطالبہ ہے وہ ساری قوم کے سامنے ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ دہرا چکے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد سیاسی اور معاشی بحران آیا اور سماجی بحران پھیلنا شروع ہوا ہے، اس کا حل سوائے نئے انتخابات کے کچھ نہیں ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے لیے ایک ادارے کو کہنا جس کا بہت زیادہ اثر ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں آپ سیاسی نظام میں بہت زیادہ اثر رکھتے ہیں تو آپ سے یہ کہنا اپنا اثر رسوخ استعمال کریں تاکہ پاکستان اس سیاسی بحران سے نکل سکے تو ہوسکتا ہے اس سے اتفاق نہ ہو لیکن یہ غیرآئینی کسی طریقے سے نہیں ہے'۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ 'بند کمروں میں ہونے والی کوئی بھی بات ایسی نہیں ہے کہ عمران خان جلسوں یا ٹی وی پر بیٹھ کر نہ کرتے ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'صحیح کہا گیا کہ قومی سلامتی صرف فوج ذمہ دار نہیں ہوسکتی جب تک قوم ساتھ کھڑی نہ ہو، اگر کچھ پریشانی نظر آرہی ہے یا ایسی چیزیں ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے فکرمند ہو رہے ہیں تو یہ لمحہ فکریہ سب کے لیے ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس پر سوچ بچار ضرور ہونا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے اور وہ تمام لوگ جو محب وطن ہیں، جنہوں نے فوج کے کردار کا دفاع کیا ہے، جو بیرونی سازشوں، فورتھ جنریشن وار فیئر کے اندر پاکستان کا دفاع کرتا ہے اور پاکستان کے اداروں کے ساتھ کھڑے ہو کر بات کرتا ہے تو سوال کیوں پوچھ رہے ہیں تو سوچ بچار کی ضرورت ہے اور یہ بہت اہم ضرورت ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب آپ اس پر سوچ بچار کریں گے تو شاید آپ کو نظر آئے کہ کچھ غلطیاں شاید اداروں سے بھی ہوئی ہوں، معاملات سے نمٹنے کی، جس طرح چیزیں ہوئی، اس پر ردعمل کے لیے بھی شاید آگے چیزوں میں بہتری آئے'۔

اسد عمر نے کہا کہ 'ڈی جی آئی ایس آئی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا معیشت سب سے اہم چیز ہے لیکن عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن ہے، اپوزیشن کو نہیں کہہ رہے، 26 سال سیاست کی ہے، دنیا کا لٹریچر اس کو سپورٹ کرتا ہے جب تک قانون کی حکمرانی نہ ہو، کرپشن پر قابو پانے کی کوششیں نہ ہو تو ملک ترقی نہیں کرتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ بالکل درست ہے کہ پاکستان نفرتوں کی وجہ سے ٹوٹا تھا لیکن کیا سوچا گیا کہ یہ نفرتیں پیدا کیوں ہوئی تھی، وہ نفرتیں کیوں شدید نہج تک پہنچیں جہاں ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی نے علیحدگی کا فیصلہ کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ اس لیے ہوا تھا کہ پاکستان کے عوام کی خواہشات پر عمل نہیں کیا گیا، پاکستان کے عوام کی اکثریت کی رائے کو کچلنے کی کوشش کی گئی، فیصلے طاقت کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کی گئی، اس لیے ہوا'۔

اسد عمر نے کہا کہ 'عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی قوم احتجاج کرنے اسلام آباد آرہی ہے، اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ امن و عامہ کا تحفظ خاص طور پر ریڈ زون کا تحفظ کیا جائے اور ضرور کیا جائے'۔

آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ پر دھچکا لگا ہے، فواد چوہدری

فواد چوہدری نے کہا کہ آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ سے دھچکا لگا ہے، رانا ثنااللہ یا خواجہ آصف بات کرتے ہیں تو ہم سیاسی جماعت ہیں ہم ایک دوسرے کو جواب دیے سکتے ہیں لیکن ہم اداروں کی پریس کانفرنسز کا جواب نہیں دے سکتے تو یہ احترام کا تعلق برقرار رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سائفر پر تحقیقات کی جائیں، چیف جسٹس کو صدر مملکت نے بھی خط لکھا ہے، تحقیقات کیوں نہیں کروا رہے ہیں، ہم نے سازش گھڑی ہوگی، برا کیا ہوگا تو تحقیقات کریں، کمیشن بنتے ہیں کبھی ان کی رپورٹ نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ایک طاقت ور کمیشن بنے جو سائفر کی تحقیق کرے اور یہی معاملہ ارشد شریف کا ہے، ان کو جو دھمکیاں ملیں وہ خفیہ تو نہیں تھی بلکہ عوام میں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف خیبرپختونخوا حکومت کے کہنے پر باہر نہیں گئے اور باہر جا بھی نہیں رہے تھے، اسی لیے انہوں نے ویزا بھی نہیں لیا تھا، ان پر 16 کیسز بنا دیے گئے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ ارشد شریف اس وقت باہر چلے گئے جب ان کو پاکستان میں بولنے نہیں دیا جارہا تھا، ان پر پابندی لگ گئی تھی کہ کسی ٹی وی پر نہیں آنا کچھ نہیں کرنا، وہ جان بچانے نہیں بلکہ بولنے کے لیے باہر گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اس پر اقوام متحدہ اور دیگر ماہرین کو شامل کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں