سپریم کورٹ کی عمران خان کے وکلا کو جاری ہدایت پر وکلا کا اظہار تعجب

30 اکتوبر 2022
پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اپنے احکامات واپس ل—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ
پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ اپنے احکامات واپس ل—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ان ہدایات پر تاسف اور تحفظات کا اظہار کیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے ان الزامات کا جواب دیں کہ پی ٹی آئی نے 25 مئی کو پارٹی مارچ کے دوران ڈی چوک نہ پہنچنے کے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہفتہ کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین حفیظ الرحمٰن چوہدری اور ایگزیکٹو کمیٹی چیئرمین پیر محمد مسعود چشتی نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا وکیل بابر اعوان اور فیصل فرید 25 مئی کی انتہائی عجیب و غریب اور غیر معمولی صورتحال کے دوران اپنے تجربے اور قابلیت کے مطابق وضاحت اور مدد کے لیے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل بطور قانونی پیشے کا بنیادی ادارہ ہونے کے سپریم کورٹ پر زور دیتا ہے کہ وہ جواب طلبی کے اپنے احکامات واپس لے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے جواب طلب کرلیا

بیان میں کہا گیا ہے کہ بابر اعوان اور فیصل فرید اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کیس میں فریق نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے اپنے پاور آف اٹارنی یا انڈرٹیکنگز جمع کرائے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے وکلا بار کی آزادی کے ساتھ عدالتی نظام میں وکلا کے کام کے بارے میں گہری تشویش کا شکار ہیں، انہوں نے مزید کہا وکلا کو جاری ہدایات پر وکلا برادری کے تحفظات ہیں۔

اپنے 26 اکتوبر کے حکم میں سپریم کورٹ نے بابر اعوان اور فیصل فرید کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن کی جانب سے لگائے الزامات کا جواب دینے کے لیے اپنے جواب 31 اکتوبر تک یا اس سے قبل جمع کرائیں، کیس کی سماعت آئندہ ہفتے دوبارہ مقرر کی جائے گی۔.

اپنے حکم نامے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عامر رحمٰن نے اپنے دلائل میں سپریم کورٹ کے 25 مئی اور 26 مئی کے احکامات کے مندرجات کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ جلسے سے متعلق دو وکلا نے پی ٹی آئی چیرمین عمران خان کی جانب سے پارٹی کی ریلی اسلام آباد کے ایچ نائن اور جی نائن سیکٹرز کے درمیان واقع گراؤنڈ میں کے انعقاد کے حوالے سے ضمانتیں دیں۔

مزید پڑھیں: ’لانگ مارچ‘ میں کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو مداخلت کریں گے، چیف جسٹس

وکلا کی جانب سے جمع کرائی گئی انڈرٹیکس میں کہا گیا تھا کہ ریلی کے باعث سری نگر ہائی وے پر کسی قسم کی پریشانی یا رکاوٹ نہیں ہو گی، شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی، ریلی پرامن، قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے منقعد کی جائے گی اور اس دوران سرکاری یا نجی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، انٹیلی جنس بیورو اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کی جانب سے دائر رپورٹس بھی پڑھ کر سنائیں اور مؤقف اپنایا دی کہ جن لوگوں نے انڈرٹیکنگ دی اور جس شخص کی جانب سے بیان حلفی دیا گیا انہوں نے خلاف ورزی کرتے ہوئے توہین عدالت آرڈیننس 2003 کی خلاف ورزی کی۔

عامر رحمٰن نے استدعا کی تھی کہ حلف نامے کی خلاف ورزی پر عمران خان اور دونوں وکیلوں کے خلاف توہین کی کارروائی شروع کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں