سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں عمران خان سے جواب طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2022
وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ
وفاقی حکومت نے وزارت داخلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو : سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ‘جہاد’ قرار دیے گئے منظم لانگ مارچ سے روکنے کے لیے عبوری حکم جاری کرنے کی درخواست ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔

چیف جسٹس کی سر براہی میں 5 رکنی خصوصی بینچ درخواست پر سماعت کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'لانگ مارچ' میں کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو مداخلت کریں گے، چیف جسٹس

آج سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور حساس اداوں کی رپورٹس کا جائزہ لیا ہے، پولیس، آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس پر ہی سب اداروں کا انحصار ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی، عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان کے 6 بجکر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا، عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بجکر 54 منٹ پر کیا، پی ٹی آئی نے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی۔

عامر رحمٰن نے کہا کہ عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے بعد شیری مزاری، فواد چوہدری، صداقت عباسی نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عثمان ڈار، شہباز گِل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی، عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کےخلاف حکومت کی سپریم کورٹ میں درخواست

عامر رحمٰن نے اپنے دلائل میں کہا کہ 26 مئی کو صبح جناح ایونیو پر 6 بجے ریلی ختم کی گی، عمران خان مختص جگہ سے گزر کر بلیو ایریا آئے اور ریلی ختم کی، مختص مقام ایچ نائن سے چار کلومیٹر آگے آکر عمران خان نے ریلی ختم کی۔

اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے دی تھی، عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا، عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے، عمران خان کو کیا بتایا گیا کہ اصل سوال یہ ہے، عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابر اعوان، فیصل چوہدری نے عمران خان کی طرف یقین دہانی کروائی تھی، یقین دہانی کرائی گی تھی کہ سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گیے۔

توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد

اس موقع پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے، عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کےخلاف توہین عدالت کی درخواست کی جلد سماعت کی استدعا

عدالت عظمیٰ نے عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چوہدری کو بھی نوٹس جاری کر تے ہوئے تحریری جواب طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے دونوں رہنماؤں کو نوٹس عمران خان کی جانب سے 25 مئی کو یقین دہانی پر جاری کیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی یا نہیں، حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کردی، اس موقع پر چیف جسٹسں نے کہا کہ عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کا عمران خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس

اس دوران عدالت نے آئی ایس آئی، آئی بی اور اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی فراہم کرنا کا حکم دیا، عدالت نے کہا کہ رپورٹ کی روشنی میں جواب جمع کروایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا جمعے کو لاہور سے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی عمران خان کو طلب کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی، چیف جسٹس نے کہا کہ ہیڈ لائنز نہیں بنوانا چاہتے، مقاصد قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔

اس دوران بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ کے دیگر اراکین سے اختلاف کیا، 4 ججز نے سابق وزیر اعظم سے جواب طلب کیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے درخواست پر مزید سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز عمران خان نے بروز جمعہ (28 اکتوبر) کو لاہور کے لبرٹی چوک سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ’میں نے فیصلہ کیا ہے جمعے کو لاہور سے لانگ مارچ شروع کر رہا ہوں اور میں مارچ کی قیادت کروں گا۔

پس منظر

واضح رہے کہ وزارت داخلہ نے 25 مئی کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر عمران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس درخواست میں حکومت نے سابق وزیر اعظم کو لانگ مارچ کے ذریعے ریاست کے خلاف جہاد کے نام پر امن و امان کی صورت حال بگاڑنے سے روکنے کا حکم بھی طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ کے شرکا پر پولیس تشدد قابل مذمت، ناقابل برداشت ہے، عمران خان

25 مئی کے اس عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ-نائن اور جی-نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب 'آزادی مارچ' کے انعقاد سے روک دیا گیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ مئی میں دیے گئے حکم پر سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور ان کے وکیل کی جانب سے اس بات کی واضح یقین دہانیوں کے پیش نظر سیکٹر ’ایچ نائن اور ’جی نائن‘ کے درمیان واقع گراؤنڈ میں جلسہ منعقد کرنے کی ہدایت کی تھی کہ ان کی ریلی سے سری نگر ہائی وے کو کسی قسم کی تکلیف یا بلاک کرنے یا عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور ریلی پرامن اور قانونی طریقے سے آگے بڑھے گی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ان یقین دہانیوں کے باوجود پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے ہدایات کو صریح نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ڈی چوک پہنچنے کی تلقین کی اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ عدالت نے بغیر کسی شرط کے مارچ کی اجازت دی تھی۔

توہین عدالت کی درخواست میں عوام بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد کی استدعا کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ: عمران خان کا نئے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک اسلام آباد کے ڈی چوک میں قیام کا عزم

عدالت عظمیٰ سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے مستقبل کے تمام احتجاجی مظاہروں کے لیے جامع ہدایات بھی جاری کرے جس میں احتجاج کی تاریخ کی پیشگی اطلاع، مقام کا انتخاب، عوامی معمولات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرنے کی یقین دہانی اور اس عزم کا اظہار شامل ہو کہ مظاہرین سرکاری یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا موجودہ حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر میں اپنایا ہوا لہجہ انتہائی اشتعال انگیز تھا جس کا مقصد عدم اعتماد اور توہین کی حوصلہ افزائی اور بغاوت کو ہوا دینا تھا۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی برادری اور سرمایہ کاروں کے لیے بھی اس مبینہ جہاد کے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔

حکومت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے مارچ کو بلا روک ٹوک اور بے ضابطگی کے جانے دیا گیا تو اس سے نہ صرف پورے ملک میں سیاسی اور امن و امان کی مخدوش صورتحال پیدا ہوجائے گی بلکہ وفاقی حکومت کی توجہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں سے جڑواں شہروں کے مکینوں کی زندگیوں پر اثرات دور کرنے کی جانب مبذول ہوجائے گی۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کے ماضی کے طرز عمل، خاص طور پر 25 مئی کے واقعات اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی، سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کرنے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کی ان کی مبینہ حوصلہ افزائی کو دیکھتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے ان کے آئندہ احتجاج کے بارے میں سخت ہدایات کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں