یونیسیف سربراہ کا پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلئے امداد میں اضافے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2022
یونیسیف ڈائریکٹر نے کہا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے 23 ہزار بچے اسکول سے محروم ہوئے ہیں —فائل فوٹو: رائٹرز
یونیسیف ڈائریکٹر نے کہا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے 23 ہزار بچے اسکول سے محروم ہوئے ہیں —فائل فوٹو: رائٹرز

اقوام متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) کے ریجنل ڈائریکٹر جارج لاریہ ایڈجی نے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب کی تباہی ہر پیمانے پر بہت زیادہ ہے، جہاں اکیلے ایجنسیز ہی امدادی سرگرمیوں میں سیلاب متاثرین کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لیے 17 کروڑ 35 لاکھ ڈالر مانگ رہی ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی ’اے پی پی‘ کے مطابق جنوبی ایشیا کے لیے یونیسیف کے ڈائریکٹر نے کہا کہ حالیہ تباہی کے اثرات بہت زیادہ ہیں، پانی سے جنم لینے ہونے والی بیماریاں پھیل رہی ہیں، کھیتوں، اسکولوں اور بڑے پیمانے پر ہر کسی کو متاثر کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 30 لاکھ سے زائد بچے خطرات کا شکار

ڈائریکٹر جارج لاریہ ایڈجی نے کہا کہ 84 اضلاع کو آفات کی وجہ سے بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب کہ کل 17 کروڑ 35 لاکھ ڈالر میں سے 3 کروڑ 46 لاکھ ڈالر غذائیت، 3 کروڑ 50 لاکھ ڈالر صحت کے لیے، 5 کروڑ 80 لاکھ ڈالر صاف ستھرائی کے لیے، ایک کروڑ 10لاکھ ڈالر بچوں کے تحفظ کے لیے اور 2 کروڑ 30 لاکھ ڈالر تعلیم کے لیے جبکہ ایک کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہنگامی تیاری کے لیے درکار ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان اس صورتحال سے نمٹنے میں مصروف ہے، تاہم 96 لاکھ بچوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے اور سیلاب کی وجہ سے تقریباً 23 ہزار اسکول یا تو تباہ ہو گئے ہیں یا نقصان کی زد میں آگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے امدادی اپیل پر ایک تہائی سے کم فنڈ جمع ہونے پر یونیسیف مایوس

آفات کے بعد کی امداد اور بحالی کی کوششوں میں درپیش چیلنجوں پر بات کرتے ہوئے یونیسیف کے ڈائریکٹر نے کہا کہ انہیں دو بڑے چیلنج نظر آ رہے ہیں جن سے حکومت کو نمٹنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعد اپنے تباہ شدہ گھروں کو واپس جا رہے ہیں جہاں خوراک نہیں ہے، مویشی ختم ہو گئے ہیں، اسکول بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور کھیت ابھی بھی زیر آب ہیں اور پانی آلودہ ہو چکا ہے۔

ڈائریکٹر نے کہا کہ ہمیں ان کمیونٹیز کی مدد کرنا ہو گی، ہمیں متبادل کے ساتھ آنا ہو گا، مثال کے طور پر متبادل کے طور پر ایک خیمہ اسکول قائم کیا جا سکتا ہے جبکہ عارضی سہولیات کا ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے مسئلے سے آگاہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس کا عارضی حل وقتی طور پر اس چیلنج کے لیے بے حد ضروری ہے۔

ڈائریکٹر جارج لاریہ ایڈجی نے کہا کہ ان اقدامات کے لیے حکومت کو مزید امداد کی ضرورت ہو گی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)کے تحت سیلاب کی نقد امداد کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان فنڈنگ فراہم کر رہی ہے جسے کسی بھی مرحلے پر نہیں رکنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: تباہ کن سیلاب سے 500 سے زائد بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، یونیسیف

انہوں نے کہا کہ دوسرا چیلنج، وہ کمیونٹیز ہیں جو ابھی تک کیمپوں میں دوستوں اور خاندانوں اور دیگرافراد کے ساتھ غیر رسمی اور رسمی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ہمیں متاثرین کو غذائیت، صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے وسائل تلاش کرنے چاہئیں۔

جارج لاریہ ایڈجی نے خبردار کیا کہ ملیریا پھیل رہا ہے اور وبائی امراض سے بچنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں علاج معالجہ کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیسیف نے اس سلسلے میں مدد فراہم کی ہے اور اسے غذائیت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزید وسائل درکار ہوں گے۔

یونیسیف ڈائریکٹر نے کہا کہ ہم سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقامی لوگوں کے لیے پانی کی جانچ اور استعمال کے قابل بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، ان اقدامات کو بڑھانا اور جاری رہنا چاہیے، پانی کے فلٹرز اور پانی صاف کرنے کے حل کی فراہمی کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بیڈ نیٹ، کیڑے مار ادویات اور دیگر اشیا بھی تقسیم کی ہیں جبکہ یونیسیف بھی ہزاروں جالیاں فراہم کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: یونیسیف کا سیلاب سے متاثرہ بچوں میں غذائیت کی شدید قلت کا انتباہ

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے صحبت پور کا دورہ کیا جہاں پانی جمع تھا اور ڈپٹی کمشنر نے ہمیں بتایا کہ ابھی پانی بالکل کم نہیں ہوا۔

انہوں نے بیکٹیریا سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلنے کے ممکنہ خطرے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی کے پھیلنے کا خدشہ ہے، یہ قدرتی آفت پوری کمیونٹی کو متاثر کر رہی ہے، صورتحال پر قابو پانے کے لیے امداد کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ڈائریکٹر نے کہا کہ اقوام متحدہ کی امدادی اپیل پر عالمی فنڈز صرف 15 فیصد ہے، ہم عطیہ دہندگان سے توجہ دینے کی اپیل کریں گے، ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں شراکت داروں سے عطیات بڑھانے کے لیے کہنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم زمین پر موجود ہیں اور متاثرہ علاقوں تک رسائی رکھتے ہیں، ہماری ترجیح سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے وسائل کو متحرک کرنا ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے دکھائے گئے کلسٹر اپروچ کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ متاثرہ آبادی کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس جانے کے لیے کس طرح بحال کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کیسز کا خطرہ بدستور بلند ہے، یونیسیف

ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ ہمیں ایک طویل اور قلیل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہوگی جس میں ضروری کمیونٹیز کے لیے خوراک اور دیگر اشیا کے ذخیرے کو کیسے بڑھایا جائے ۔

یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر نے اس بات پر زور دیا کہ فنڈ نے انسانی امداد، علاج معالجے، پانی کے مقامات اور خیموں اور بیت الخلا کے انتظام کے لیے 4 کروڑ ڈالر جمع کیے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کو کیسے تیز کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں