حکومت نے خود مختار، نیم خودمختار، پبلک سیکٹر کارپوریشنز اور اداروں کو اپنے عملے کی نوکری کی شرائط و ضوابط سے متعلق کوئی ایسا حکم جاری کرنے سے روک دیا ہے جس کے مالی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے اپنے ایک حکم میں وزارتوں اور ڈویژنز سے کہا ہے کہ وہ یہ بات یقینی بنائیں کہ ان سے منسلک اور ماتحت محکموں میں بھی اس طرح کے کوئی احکامات جاری نہ ہوں۔

سینئر سرکاری عہدیدار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیا حکم ایسے وقت میں جاری کیا گیا جب کہ مختلف محکمے اپنے گریڈ 17 سے 22 کے منتخب وفاقی سرکاری سینئر افسران کو تنخواہوں کے 150 فیصد ( جو کہ ماہانہ ایک لاکھ 50 ہزار سے 2 لاکھ روپے کے درمیان بنتا ہے) کی شرح سے خصوصی الاؤنسز کے فراہم کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار امریکا روانہ، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کریں گے

ان محکموں اور کارپوریشنز نے اپنے طور پر اپنے متعلقہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے اسی طرح کے فوائد حاصل کرنا شروع کر دیے تھے، ان محکموں کا کہنا ہے کہ ان کے بورڈز کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے تاہم وزارت خزانہ نے انہیں یاد دلایا ہے ان کا بورڈ آف ڈائریکٹرز اتنا خود مختار نہیں ہے۔

اپنے حکم میں وزارت خزانہ نے رولز آف بزنس 1973 کے رول نمر 12 کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ڈویژن، فنانس ڈویژن کے ساتھ پیشگی مشاورت کے بغیر کسی بھی ایسے آرڈر کے اجرا کی منظوری نہیں دے گا جو کہ نوکری کی شرائط و ضوابط یا حکومت کی خدمات میں تبدیلی سے متعلق ہو اور اس حکم کے ملازمین کے قانونی حقوق اور مراعات پر مالی اثرات مرتب ہوتے ہوں۔

2016 کے ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ حکومت رولز آف بزنس 1973 کی پابند ہے اور ان پر عمل کرنے میں ناکامی کی صورت میں اس حکم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف سے پاکستان کیلئے زیادہ پالیسی سپورٹ کا مطالبہ

ان قانونی نکات کی بنیاد پر وزارت خزانہ نے کہا کہ تمام ادارے اور محکمے عملے کی تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کی جائے۔

ان ہدایات کے تحت، وزارت خزانہ نے نوٹی فکیشن جاری کیا ہے کہ تنخواہوں اور متعلقہ مراعات میں رد و بدل متعلقہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ذریعے کی جا سکتی ہے لیکن اس طرح کی نظرثانی کو ہمیشہ متعلقہ اداروں کی مالی پوزیشن کے ساتھ ساتھ منطقی وجوہات اور یکسانیت کے اصول کے علاوہ فنانس ڈویژن کی کلیئرنس کی بھی ضرورت ہو گی۔

تبصرے (0) بند ہیں