عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے اندراج پر ڈیڈ لاک برقرار

06 نومبر 2022
پی ٹی آئی پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھارہی ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز
پی ٹی آئی پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھارہی ہے—فائل فوٹو : ڈان نیوز

وزیر آباد میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کا معاملہ ایسی صورتحال میں مزید پیچیدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جب پی ٹی آئی پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں مبینہ ہچکچاہٹ پر سوالات اٹھارہی ہے جبکہ پولیس پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اب تک ایف آئی آر درج کرنے کی کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کرہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم کی جانب سے ایک اعلیٰ فوجی افسر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے اصرار پر پنجاب کی حکمران اتحادی جماعتوں (پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق) کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے، اس دوران یہ افواہیں بھی گرم ہوئیں کہ ایف آئی آر کے اندراج میں ہچکچاہٹ پر صوبائی حکومت انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) فیصل شاہکار کا تبادلہ کرنے جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عمران خان پر حملے کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے‘

خیال رہے کہ وزیر آباد کے اللہ والا چوک پر فائرنگ کے واقعے میں پی ٹی آئی کا ایک کارکن جاں بحق اور عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں سمیت 14 افراد زخمی ہو گئے تھے، یہ وہ مقام تھا جہاں وفاقی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کا حقیقی آزادی مارچ اسلام آباد جاتے ہوئے کچھ دیر رکا تھا۔

پنجاب پولیس اس واقعہ میں ملوث کم از کم 3 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا تاہم انہوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے ایف آئی آر کے لیے کوئی درخواست موصول ہونے سے انکار کیا ہے، دوسری جانب عمران خان کے بھتیجے ایڈووکیٹ حسن نیازی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے درخواست پولیس اسٹیشن میں جمع کرا دی ہے لیکن اہلکاروں نے انہیں اس کی کوئی رسید فراہم نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے درخواست میز پر چھوڑ دی اور واپس آگیا‘، بعدازاں انہوں نے ٹوئٹ کی کہ ’ایس ایچ او وزیرآباد اور ڈی پی او وزیرآباد نے درخواست لینے سے بھی انکار کردیا، 48 گھنٹے گزر چکے ہیں، پولیس نے درخواستیں لینے سے انکار کر رہی ہے، درخواست گزار زبیر نیازی (پی ٹی آئی لاہور جنرل سیکریٹری) سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے نام میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ ایک نام ایف آئی آر کے لیے درخواست میں سے نکال دیں‘۔

مزید پڑھیں: عمران خان پر حملے کے باوجود پی ٹی آئی کا پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان

قبل ازیں عمران خان نے ایک پریس کے دوران بتایا تھا کہ جن 3 لوگوں پر انہوں نے اپنے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا ہے ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہیں کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور ’ایک‘ میجر جنرل مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ڈان کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت ملک کا ہر شہری برابر ہے اور کسی کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے چاہے وہ حاضر سروس فوجی افسر ہو، سول افسر ہو یا وزیراعظم ہو۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر قاتلانہ حملہ، وفاق کا پنجاب حکومت سے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ شہری کی شکایت پر کسی کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے، تاہم اسٹیشن ہاؤس آفیسر کے قانونی اختیارات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او ایف آئی آر کے اندراج سے قبل کسی بھی شکایت پر انکوائری بھی کر سکتا ہے۔

چونکہ کسی بھی شہری کے خلاف 'جھوٹی' شکایت بھی ہو سکتی ہے، اس لیے پولیس افسر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے انکوائری کرے اور پھر فیصلہ کرے کہ آیا مقدمہ درج کرنا ہے یا نہیں، درخواست 'جعلی اور غیر سنجیدہ' ہونے کی صورت میں ایس ایچ او کے پاس شکایت کنندہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اختیار بھی ہے۔

ایڈووکیٹ صفدر شاہین پیرزادہ نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 پولیس کو کسی بھی شہری کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار دیتی ہے، اگر جرم قابلِ سزا ہو تو فوجی حکام کو مقدمے کے اندراج سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور عالمی تجزیہ کاروں کی رائے

تاہم انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر انکوائری کر سکتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے شکایت کنندہ سے ثبوت طلب کر سکتا ہے کہ کسی نامزد مشتبہ شخص کی گرفتاری کی ضمانت ہے یا نہیں۔

دریں اثنا میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الزام عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ کچھ عہدیداروں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے کہ وہ وزیر آباد حملے کے حوالے سے ایف آئی آر کے لیے ہماری درخواست قبول نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس بات نے ایک سنگین سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کہ اتنے سنگین کیس میں ایف آئی آر درج نہیں کی جا رہی، لوگ پنجاب پولیس کے سربراہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے اور اس بات کا تعین کرے کہ کیا اعلیٰ پولیس افسر واقعی بے بس ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں