سیاستدان اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں، پارلیمنٹ مضبوط کریں، چیف جسٹس اطہر من اللہ

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2022
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی جبکہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس تقریب منعقد ہوئی، جس میں اسلام آباد بار کونسل، ہائی کورٹ بار، وکلا کی بڑی تعداد سمیت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، اٹارنی جنرل آفس کے افسران بھی موجود تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس اطہر من اللہ، نامزد چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی ریفرنس تقریب میں شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس اطہر من اللہ کی بطور سپریم کورٹ جج منظوری دے دی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میں کوئی کریڈٹ نہیں لینا چاہتا، ساتھی ججز اور متحرک بار کے بغیر کچھ ممکن نہ تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ دیگر ہائی کورٹس کی طرح نہیں، اس کی ایک الگ حیثیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک علاقے کی ہائی کورٹ نہیں، فیڈریشن کی نمائندگی کرتی ہے، وکلا کے حوالے سے جس واقعے کی بات کی گئی، اس میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا، ہم نے اپنے فیصلوں میں بار بار دہرایا ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں، یہ بھی فیصلوں میں لکھا کہ قانون صرف اشرافیہ کے لیے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جھگڑے عدالتوں میں نہ لائیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کریں، عدلیہ بھی اختیارات کی تقسیم کے اصول کو مدنظر رکھنے کی پابند ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہماری آدھی سے زیادہ زندگی آمریت میں گزر گئی، یہ ہمارا المیہ ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی، ہمارا ایک مخصوص کردار ہے اور ہم صرف فیصلہ دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سویلین بالادستی اور آئین کی بالادستی کا سوال ہو، تو اس کا جواب نفی میں ہے، آئین کی عمل داری اسی وقت ہو سکتی ہے جب مائنڈ سیٹ تبدیل ہو، سیاسی قیادت آئین کی عمل داری کو مضبوط کر سکتی ہے، ہمارے ادارے کی جوابدہی پبلک اسکروٹنی کے ساتھ ہے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: جوڈیشل کمیشن کی جسٹس اطہرمن اللہ اور 2 جونیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بار اور بار کے ہر رکن کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ہائی کورٹ رپورٹرز نے اپنے آپ کو پروفیشنل رپورٹر ثابت کیا ہے۔

چیف جسٹس نے لاپتا افراد کے حوالے سے تاریخی فیصلے تحریر کیے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں بطور جج نامزدگی پر فیئر ویل کے لیے یہاں جمع ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس صفدر شاہ کے داماد ہیں، جسٹس صفدر سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کو سزا سنانے والے بینچ کا حصہ تھے اور اختلافی نوٹ لکھا تھا، جسٹس صفدر شاہ کو ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے فیصلے سے اختلاف کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

منور اقبال دوگل نے کہا کہ 28 نومبر 2018 کو جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا تھا، اور لینڈ مارک فیصلے کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جانوروں کے حقوق، لاپتا افراد کے حوالے سے تاریخی فیصلے تحریر کیے۔

امریکی عدالت میں بھی چیف جسٹس کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عدالت میں بھی چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا گیا، انہوں نے آزادی اظہار رائے اور صحافیوں کے بنیادی حقوق سمیت لاپتا افراد سے متعلق اہم فیصلے دیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط، جونیئر ججز کی نامزدگی واپس لینے کی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلوں پر تنقید کو بھی خوشدلی سے قبول کیا اور توہین عدالت کا اختیار استعمال نہیں کہا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کیا۔

قمر سبزواری کی ہائی کورٹ حملہ کیس میں ملوث وکلا کی معافی کی درخواست

اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قمر سبزواری کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا جج نامزد ہونے پر مبارکباد دی اور ہائی کورٹ حملہ کیس میں ملوث وکلا کو معاف کرنے کی استدعا کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس عامر فاروق نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وکلا تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے، انہوں نے انسانی حقوق کے معاملے پر خصوصی توجہ دی، جیل اصلاحات کے لیے سینٹرل جیل کا دورہ کیا۔

یاد رہے کہ 4 نومبر کو قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس اطہر من اللہ کی بطور سپریم کورٹ جج کے لیے نام کی منظوری دی تھی۔

واضح رہے کہ 24 اکتوبر کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے ساڑھے 3 گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی تجویز متفقہ طور پر منظور کی تھی، جبکہ ہائی کورٹ کے 3 ججوں میں سے 2 کی ترقی کی منظور اور ایک امیدوار کا نام مسترد کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں