عمران خان پر حملے کے بعد پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کرنے میں ناکام

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2022
پارٹی کا احتجاج صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود ہے جہاں وہ برسراقتدار ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
پارٹی کا احتجاج صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود ہے جہاں وہ برسراقتدار ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد سے تین اراکین قومی اسمبلی اور پارٹی سیکریٹری جنرل ہونے کے باوجود 3 نومبر کو پارٹی چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بعد سے وفاقی دارالحکومت میں ایک بھی احتجاج نہیں کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کا احتجاج صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا تک محدود ہے جہاں وہ برسر اقتدار ہے اور وہاں اسے پولیس کی گرفتاریوں کا کوئی خوف نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا ’حقیقی آزادی لانگ مارچ‘ حملے کے مقام سے آج دوبارہ شروع ہوگا

تاہم اس حوالے سے رابطہ کرنے پر پی ٹی آئی کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات عامر مغل نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں احتجاج نہ کرنا ایک دانستہ اقدام ہے کیونکہ 11 نومبر بلدیاتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی اور قیادت نہیں چاہتی تھی کہ کارکنان احتجاج کریں اور انہیں اس سے پہلے گرفتار کیا جائے۔

اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی علی نواز اعوان نے دعویٰ کیا کہ جس دن پارٹی چیئرمین پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اس دن شہر مکمل طور جام ہوگیا تھا، تاہم بعد ازاں وفاقی دارالحکومت کی سرحدوں پر احتجاج کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی۔

عمران خان اس وقت زخمی ہوئے جب پارٹی کا حقیقی آزادی مارچ وزیر آباد پہنچا تھا، اس حملے میں پی ٹی آئی کے ایک حامی جاں بحق ہو گئے تھے جس کی شناخت معظم نواز کے نام سے ہوئی تھی جبکہ پارٹی کے 14 رہنما اور کارکن زخمی ہوئے تھے، اس کے بعد عمران خان کو لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

حملے کے بعد پارٹی نے ملک بھر میں احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تاہم اس کے احتجاج زیادہ تر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا لانگ مارچ کی سیکیورٹی سخت، 15 ہزار اہلکار تعینات کرنے کا حکم

گزشتہ ماہ عمران خان نے پشاور میں جلسہ کیا اور پھر لاہور چلے گئے البتہ وہ واپس اسلام آباد نہیں آئے، اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ عمران خان گرفتاری سے بچنے کے لیے اسلام آباد نہیں آئے کیونکہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ انہیں گرفتار کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔

عامر مغل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر چکا ہے اور وفاقی حکومت پی ٹی آئی کے کارکنوں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکنے کے لیے گرفتار کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں 101 یونین کونسلز ہیں اور ہر یو سی کے لیے 13 کارکنوں کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی ضرورت ہے، چونکہ ہمیں تقریباً 1400 کارکنوں کی ضرورت ہے، اس لیے ہم ان کی گرفتاری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے 8 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت کو گرفتاریوں اور کارکنوں کو ہراساں کرنے سے روکنے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔

عامر مغل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکن کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا آغاز کریں گے۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کیس کے دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب ہونے کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ ہم گرفتاریوں سے خوفزدہ نہیں ہیں، ہم پارٹی چیئرمین کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور 11 نومبر کے بعد اسلام آباد میں احتجاج شروع ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں