عمران خان پر حملہ، پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2022
حملے میں ایک شخص جاں بحق اور عمران خان سمیت 7 زخمی ہو گئے تھے— فائل فوٹو: عون جعفری
حملے میں ایک شخص جاں بحق اور عمران خان سمیت 7 زخمی ہو گئے تھے— فائل فوٹو: عون جعفری

پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر قاتلانہ حملے اور وزیرآباد پولیس کی جانب سے مقدمے میں ایف آئی آر کے اندراج کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب وزیر آباد کی ایک سیشن عدالت نے سابق حکمران جماعت کی جانب سے ایک سب انسپکٹر کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مقامی پولیس سے جواب طلب کیا جس میں عمران خان کی جانب سے نامزد کیے گئے تینوں بڑے ملزمان کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیر آباد: لانگ مارچ میں کنٹینر پر فائرنگ، عمران خان سمیت کئی رہنما زخمی، حملہ آور گرفتار

محکمہ داخلہ کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی سربراہی ڈی آئی جی (اسٹیبلشمنٹ II) اور سی پی او لاہور طارق رستم چوہان کریں گے، دیگر ارکان میں ڈیرہ غازی خان کے ریجنل پولیس افسر سید خرم علی، اے آئی جی/مانیٹرنگ احسان اللہ چوہان، انویسٹی گیشن برانچ وہاڑی کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد زطر بزدار اور سی ٹی ڈی لاہور کے ایس پی نصیب اللہ خان شامل ہیں۔

محکمہ داخلہ پنجاب نے پنجاب پولیس کے سربراہ فیصل شاہکار کی درخواست پر جے آئی ٹی تشکیل دی ہے۔

اس کے علاوہ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے اپنے رہنما کی شکایت پر ایف آئی آر کا اندراج نہ کرنے کے خلاف درخواست پر مقامی پولیس سے جواب طلب کیے ہیں۔

ایڈووکیٹ اورنگزیب مارل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے درخواست گزار کی جانب سے دائر درخواست پر غور نہیں کیا اور ایک سب انسپکٹر عامر شہزاد کی شکایت پر ’غیر قانونی ایف آئی آر‘ اس وقت درج کی جب سپریم کورٹ نے آئی جی پولیس کو 24 گھنٹے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر گمراہ کن اور غلط ہے اور اس وجہ سے اسے مسترد کرنا چاہیے کیونکہ پولیس کا بنیادی مقصد درخواست گزار کی شکایت پر ایف آئی آر کے اندراج کو روکنا تھا۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ پولیس کو مزید تاخیر کیے بغیر درخواست گزار کی جانب سے دائر درخواست کی بنیاد پر فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے، عدالت نے دلائل سننے کے بعد فریقین کو 14 نومبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے درخواست پر جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان پر قاتلانہ حملہ، وفاق کا پنجاب حکومت سے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ

دریں اثنا، وکلا کا خیال ہے کہ ریاست کی شکایت پر مقدمہ درج ہونے کے باوجود پی ٹی آئی چیئرمین یا پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو حقائق کے بیان کے مطابق ایف آئی آر درج کروانے کا قانونی حق ہے، انہوں نے 2014 کے اس حکم نامے کا حوالہ دیا جو ایک سیشن عدالت نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف، اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور متعدد وزرا کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمے میں پولیس کو دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں