ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی بھانجی نے ویڈیو میں حکومت کو ’قاتلوں اور بچوں کو مارنے والی‘ قرار دیا، جس کے بعد ایرانی حکام نے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔

غیرملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق فریدہ مرادخانی کا تعلق خاندان کے اس طبقے سے ہے، جس کا موجودہ ایرانی حکومت کی مخالفت کا ریکارڈ ہے، وہ اس سے قبل بھی جیل جا چکی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کے بھائی محمود مرادخانی نے ٹوئٹ کیا کہ انہیں پراسیکیوٹر کے دفتر طلب کیا گیا تھا، جہاں سے انہیں بدھ کو گرفتار کیا گیا۔

ہفتے کو ان کے بھائی نے یوٹیوب پر ویڈیو پوسٹ کی، جس کا لنک ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا، جس میں فریدہ مرادخانی نے ایرانیوں کو ’واضح مظالم‘ کا نشانے بنانے کی مذمت کی اور اس حوالے سے عالمی برادری کی جانب سے کچھ نہ کرنے پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو آزاد کریں، ہمارے ساتھ آئیں اور اپنی حکومت کو کہیں کہ قاتلوں اور بچوں کو مارنے والے دور کی حمایت کرنا ختم کریں۔

ان کا ویڈیو میں کہنا تھا کہ یہ حکومت کسی مذہبی اصول کی وفادار نہیں ہے، یہ طاقت کے سوا کسی قانون یا قاعدے کو نہیں جانتی اور طاقت کے ذریعے اپنے اقتدار کو ہر ممکن طریقے سے برقرار رکھ رہی ہے۔

یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ویڈیو کب ریکارڈ کی گئی تھی۔

انہوں نے شکایت کی کہ کریک ڈاؤن کے خلاف حکومت پر پابندیاں لگانا مضحکہ خیز ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایرانیوں کو اپنی آزادی کی لڑائی میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فریدہ مرادخانی آیت اللہ خامنہ ای کی ہمشیرہ بدری کی صاحبزادی ہیں، وہ 1980 کی دہائی میں عراق بھاگ گئی تھیں جس وقت اس کے پڑوس کے ساتھ جنگ اپنے عروج پر تھی۔

وہ حکومت سے اختلاف رکھنے والے اپنے شوہر اور مذہبی رہنما علی تہرانی کے پاس چلی گئی تھیں۔

انہیں سزائے موت کے خالف ایکٹوسٹ کے طور پر شہرت حاصل ہوئی، انہیں آخری بار اس سال جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری اکتوبر 2021 میں ویڈیو کانفرنس کے بعد کی گئی تھی، جس میں انہوں نے فرح دیبا کی تعریف کی تھی جو شاہ محمد رضا کی بیوہ ہیں، جس کی حکومت کا خاتمہ 1979 کے اسلامی انقلاب میں ہوا تھا۔

ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس نیوز ایجنسی نے بتایا کہ انہیں ضمانت پر اپریل میں رہا کیا گیا تھا، جنہوں نے بدھ کو گرفتاری کے بعد 15 سال کی موجودہ سزا کاٹنا شروع کی۔

ان کے خلاف الزامات کی فوری طور پر وضاحت نہیں ہوسکی۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق اخلاقی پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک تقریباً 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ناورے میں مقیم ایران کی ہیومن رائٹس کے مطابق کریک ڈاؤن میں اب تک کم ازکم 416 لوگ مارے گئے ہیں جس میں 51 بچے بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں