پی ٹی آئی کے استعفے کا منصوبہ ناکام بنانے کیلئے پی ڈی ایم متحرک

شائع November 28, 2022
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا — فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا — فائل فوٹو: اے پی پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی میں اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں صوبے پر حکمرانی کرنے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کو ختم کرنے کے لیے دستیاب آپشنز پر غور کیا جائے گا تاکہ کم از کم اسے اسمبلی تحلیل کرنے سے روکا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس (آج) پیر کو اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی زیر صدارت ماڈل ٹاؤن کے صوبائی سیکرٹریٹ میں ہوگا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ہفتے کے روز راولپنڈی میں اعلان کیا تھا کہ ملک بھر میں قبل از وقت انتخابات کے لیے مرکز میں قائم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے پارٹی کے اراکین پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں سے اپنے استعفے دے دیں گے۔

371 اراکین پر مشتمل پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کو 179 اراکین صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے جن میں مسلم لیگ (ن) کے 167، پیپلز پارٹی کے 7، 4 آزاد اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن شامل ہے، انہیں پی ٹی آئی - مسلم لیگ (ق) کے حمایت یافتہ وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے لیے مزید 7 ووٹ درکار ہیں۔

اپوزیشن، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ناراض اراکین اسمبلی کی حمایت سے امیدیں وابستہ نہیں کر سکتی کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اگر پارٹی پالیسی کے خلاف رائے شماری کی گئی تو ان کے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جائے گا، جبکہ وہ اراکین اسمبلی کے طور پر بھی نااہل ہو جائیں گے۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ گورنر وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے کیونکہ اس صورت میں حکمراں اتحاد کے ناراض اراکین عدم اعتماد کے ووٹ کے دوران ووٹ دینے سے اجتناب کر سکتے ہیں اور اس طرح سے ممکنہ نااہلی کو بھی ٹال سکتے ہیں۔

اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات پر نظرثانی کی درخواست کا جائزہ لیا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 130 کی شق 7 کے تحت گورنر کو وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کرنے سے روکنے کے بظاہر اقدام میں پی ٹی آئی - مسلم لیگ (ق) اتحاد اسمبلی کا اجلاس جاری رکھے ہوئے ہے جس کے اجلاس ہفتوں بعد ہوتے ہیں اور اس دوران کوئی پیشرفت بھی نہیں ہوتی۔

تاہم اسامہ خاور جیسے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ متعلقہ آئینی شق گورنر کے اختیار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی اور اگر گورنر کی رائے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اکثریت کھو چکے ہیں تو وہ وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ اگر متعلقہ صوبے کا منتخب ایوان پہلے سے ہی اجلاس میں ہو تو گورنر وزیراعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے خصوصی اجلاس طلب نہیں کر سکتا۔

اس دوران پیپلز پارٹی نے بھی تحریک عدم اعتماد پر اپنے اراکین پنجاب اسمبلی کے دستخط مانگنا شروع کر دیے ہیں، پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ چونکہ سید علی حیدر گیلانی سمیت کچھ اراکین اسمبلی اس وقت بیرون ملک ہیں اس لیے انہیں کوریئر سروس کے ذریعے دستخط کے لیے دستاویز بھیجی جا رہی ہے۔

دریں اثنا، پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار نے اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سے ملاقات کی، توقع ہے کہ سابق صدر ’مشن لاہور‘ کے لیے جلد لاہور جائیں گے۔

پی پی پی کے ذرائع نے بتایا کہ ’مشن لاہور‘ کا مقصد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) پر مشتمل حکمراں اتحاد کو ختم کرنا ہے اور آصف زرداری اپنی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کچھ عرصہ صوبائی دارالحکومت میں ہی قیام کریں گے۔

ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے سندھ کو درپیش مالیاتی مسائل پر بھی بات چیت کی۔

خیبرپختونخوا کی پارٹیوں نے بھی سر جوڑ لیے

عمران خان کے اعلان کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں بھی سیاسی سرگرمیوں میں ہلچل مچ گئی جہاں تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے ممکنہ اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے کے حوالے سے اپنی مرکزی قیادت سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فیصلہ جے یو آئی (ف) کے خیبر پختونخوا اسمبلی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر محمد اکرم خان درانی کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں کیا گیا، اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک، پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی نگہت اورکزئی، مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی اختیار ولی اور دیگر نے شرکت کی۔

میڈیا کے نمائندوں سے مختصر گفتگو میں اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین واقعی اپنے فیصلوں کے بارے میں ’سنجیدہ‘ ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 6 اکتوبر 2024
کارٹون : 4 اکتوبر 2024