قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکن پارلیمنٹ محسن داوڑ نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں سویلین بالادستی کی موجودہ صورتحال پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ دور حکومت سے بھی بدتر ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز (یکم دسمبر کو) قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن رکن سائرہ بانو نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے عوامی اجتماع میں خواتین کے حوالے سے قابل اعتراض بیان کی مذمت کی، انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کا دفاع کرنے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کے اراکین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔

بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے ایوان میں سائرہ بانو سے سوال کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے اور احتجاجی مقامات پر خواتین کی ’بےعزتی‘ کرنے پر انہوں نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ کیوں نہیں بنایا؟۔

سائرہ بانو نے حکومتی اراکین کے سوال پر جواب دینا چاہا لیکن ان کے بارہا اصرار کے باوجود اسپیکر نے انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا، اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کے قوانین کے مطابق کوئی بھی رکن اپنے دفاع کے لیے ایسے شخص پر تنقید یا بات نہیں کرسکتا جو ایوان میں موجود ہی نہ ہو، اس لیے گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس کی رکن سائزہ بانو مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے سے بات نہیں کرسکتیں۔

اسپیکر کی رولنگ کے بعد سائزہ بانو نے مجبوراً احتجاجاً کورم کی نشاندہی کی، جس کی وجہ سے اسپیکر کو آج (2 دسمبر) کی صبح تک اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔

ایوان کی کارروائی کے آغاز میں قبائلی علاقوں سے منتخب رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین محسن داوڑ نے ایوان کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ پر سیکیورٹی کانفرنس کے لیے تاجکستان روانگی سے روکنے کے واقعے سے آگاہ کیا۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ ایف آئی اے حکام نے کوئی ٹھوس وجہ بتائے بغیر کہا کہ انہیں ایسا کرنے کے لیے اعلیٰ افسران کی جانب سے یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

بیرون ملک روانگی سے روکنے کے ذمہ دار شخص کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے محسن داوڑ نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال کیے جانے والے لفظ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شاید انہیں حوالدار نے ایسا کرنے کے احکامات دیے تھے۔

رکن اسمبلی مزید نے کہا کہ ہم نے اختیارات، مراعات اور عہدے حاصل کرنے کے لیے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہیں کی تھی، حالانکہ اُس وقت عمران خان تو ہمیں مزید عہدوں کی پیشکش کر رہے تھے، ہم نے عدم اعتماد ووٹنگ کی اس لیے حمایت کی تھی کیونکہ عمران خان سویلین بالادستی کو پاؤں تلے روندتے ہوئے عوامی طاقت کو کچلنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سابقہ حکومت کو اس لیے نہیں ہٹایا تھا کہ نئی حکومت بھی وہی پالیسیاں اپنائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما روحیل اصغر اور مفتی شکور نے بھی محسن داوڑ کی حمایت کی تاہم بعدازاں اسپیکر نے یہ معاملہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔

روحیل اصغر نے مؤقف اختیار کیا کہ اسپیکر کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے معاملہ ایوان میں لانے کے بجائے اپنے چیمبر میں ہی حل کرنا چاہیے تھا۔

مسلم لیگ(ن) نے اس دوران اسپیکر کو اس وقت مشکل میں ڈال دیا جب انہوں نے انہیں علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا کہا۔

تبصرے (0) بند ہیں