سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بحال کر دیا

02 دسمبر 2022
فیڈرل سروس ٹریبونل کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کو معطل کردیا تھا—فائل/فوٹو: ٹوئٹر
فیڈرل سروس ٹریبونل کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کو معطل کردیا تھا—فائل/فوٹو: ٹوئٹر

سپریم کورٹ نے سروس ٹریبونل کا فیصلے معطل کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو بحال کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔

جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے سی سی پی لاہور غلام محمود ڈوگر کی درخواست پر سماعت کی جہاں ان کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے۔

سپریم کورٹ نے غلام محمود ڈوگر کی درخواست پر سروس ٹربیونل کے خصوصی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔

وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ غلام محمود ڈوگر کو فیڈرل سروس ٹربیونل نے بحال کیا تھا تاہم بعد میں سروس ٹربیونل کے دو رکنی بینچ نے بحالی کا فیصلہ معطل کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹربیونل کے دو رکنی بینچ کا فیصلہ دوسرا دو رکنی بینچ معطل نہیں کر سکتا اور حکومت کی نظرثانی درخواست بھی ٹربیونل میں زیرالتوا تھی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے معطل سی سی پی او لاہور کی بحالی کے حکم کے بعد عمران خان پر حملے کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی فعال ہوگئی ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے 5 نومبر کو سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف پی ٹی آئی کارکنان کے احتجاج کے دوران گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی یقینی نہ بنانے پر معطل کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گورنر ہاؤس کے عہدیداروں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پی کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ ایک ہجوم نے دی مال کے مین گیٹ توڑنے کی کوشش کی، ٹائر جلائے، سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچایا اور احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

خط میں مظاہرین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کیپٹل سٹی پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ ہی حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ مزید احکامات جاری ہونے تک غلام محمد ڈوگر کی معطلی پر فوری طور پر عمل درآمد ہوگا۔

بعد ازاں غلام محمود ڈوگر نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنی معطلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی تاہم عدالت عالیہ نے ان کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردی تھی۔

انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ وفاقی حکومت نے 27 اکتوبر کو 3 روز میں عہدے کا چارج چھوڑنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، وفاق کے نوٹیفکیشن کا جواب دینے پر عجلت میں 5 نومبر کو عہدے سے معطل کر دیا، سی سی پی او لاہور کی معطلی کا حکم نامہ معطل کیا جائے۔

جس کے بعد فیڈرل سروس ٹریبونل اسلام آباد نے غلام محمود ڈوگر کو لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) کے عہدے پر برقرار رہنے کی اجازت دی تھی تاہم دو رکنی بینچ نے انہیں معطل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔

سروس ٹریبونل اسلام آباد کے فیصلے کے خلاف غلام محمود ڈوگر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی تھی۔

اس سے قبل ستمبر میں وفاقی حکومت نے غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کی خدمات واپس لینے کے ساتھ ساتھ انہیں تاحکم ثانی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے سی سی پی او کو چارج چھوڑنے سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نہ تو سی سی پی او کو ہٹا سکتی ہے اور نہ ہی ان کا تبادلہ کر سکتی ہے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ فیڈرل سروس کا ملازم ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکار کو تبادلے کے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ گریڈ 21 کے پولیس افسر غلام محمود ڈوگر جو اس وقت پنجاب حکومت کے ماتحت خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کا تبادلہ کردیا گیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر تاحکم ثانی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں