متنازع ٹوئٹس کیس: اعظم سواتی 5 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2022
قاسم سوری نے کہا اعظم سواتی کے معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کرنے  کے لیے وکلا سے مشاورت کریں گے — فوٹو: ٹوئٹر
قاسم سوری نے کہا اعظم سواتی کے معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے وکلا سے مشاورت کریں گے — فوٹو: ٹوئٹر

کوئٹہ کی مقامی عدالت نے متنازع ٹوئٹ کے کیس میں گرفتار سینیٹر اعظم سواتی کو 5 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل سینیٹر اعظم سواتی کو کوئٹہ پولیس نے اسلام آباد سے اپنی تحویل میں لے کر بلوچستان منتقل کیا تھا جب کہ اس سے ایک روز قبل ہی اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

قومی اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر کچلاک تھانے میں درج مقدمے پر اعظم سواتی کو کوئٹہ کی کچہری میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

پولیس نے عدالت سے اعظم سواتی کا 10 روزہ ریمانڈ دینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے 5 روزہ ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا۔

اعظم سواتی کی کچھری پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، انہیں عقبی دروازے سے عدالت میں لایا گیا۔

اس موقع پر سابق ڈپٹی اسیکر قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر قاسم خان سوری نے کہا کہ اعظم سواتی کے خلاف بے بنیاد ایف آئی آرزکاٹی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی کی طبیعت ناساز ہے، عمران خان سمیت تمام رہنماؤں پر ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔

قاسم سوری نے کہا کہ اعظم سواتی کے معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے وکلا سے مشاورت کریں گے۔

اعظم سواتی کی دوسری بار گرفتاری

خیال رہے کہ 27 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل انہیں 12 اکتوبر کو آرمی چیف کے خلاف ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی ہے۔

سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 20 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 131، 500، 501، 505 اور 109 کے تحت درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘

۱.

ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔

ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں