سپریم کورٹ نے سینئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف قتل کیس میں اسلام آباد پولیس کی قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) مسترد کرتے ہوئے آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندوں پر مشتمل نئی خصوصی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل پر حکومت کی قائم اسپیشل جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے نئی خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ حکومت نئی جے آئی ٹی کا نوٹی فکیشن جاری کرے جس میں آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندے شامل کیے جائیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ چاہتے ہیں تفتیش سینئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے، جے آئی ٹی ارکان معاملہ فہم اور دوسرے ملک سے شواہد لانے کے ماہر ہوں، اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں، یقینی بنانا ہے کہ قابل اور اہل افسران قانون کے مطابق اپنا کام کریں۔

دوران سماعت صحافی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ارشد شریف کے اہلخانہ کے ساتھ درست رویہ نہیں اپنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس والا معاملہ بھی دیکھ لیں گے، پہلے ارشد شریف کی والدہ کا مؤقف سنیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، فائرنگ کرنے والے 3 اہلکاروں سے ملاقات کرائی گئی، چوتھے اہلکار کے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی، کینیا میں متعلقہ وزیر اور سیکریٹری کابینہ سے ملاقات کی کوشش کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بہیمانہ قتل کے اصل شواہد کینیا میں ہیں، کینیا کے حکام کے ساتھ معاملہ اٹھانا ہوگا، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے، فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ مقدمے میں کس بنیاد پر 3 لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جائزہ لینا ہوگا کہ غیر ملکیوں کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے یا نہیں، انکوائری رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنے گی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، تنبیہ کر رہا ہوں کہ حکومت بھی سنجیدگی سے لے، عدالت صرف آپ کو سننے کے لیے نہیں بیٹھی ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ 2 شہدا کی ماں ہیں، شہید کی والدہ کا مؤقف صبر اور تحمل سے سنا جائے۔

ارشد شریف کی والدہ نے عدالت کو بتایا کہ جس طرح پاکستان سے ارشد شریف کو نکالا گیا وہ رپورٹ میں لکھا ہے، دبئی سے جیسے ارشد کو نکالا گیا وہ بھی رپورٹ میں ہے، مجھے صرف اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہیے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ کو تحقیقاتی ٹیم کو بیان ریکارڈ کرانا ہوگا، جس پر ارشد شریف کی والدہ نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کو بیان پہلے بھی ریکارڈ کروا چکی ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ نے کئی لوگوں کے نام دیے ہیں، حکومت قانون کے مطابق تمام زاویوں سے تفتیش کرے، فوجداری مقدمہ ہے اس لیے عدالت نے کمیشن قائم نہیں کیا، کیس شروع ہی خرم اور وقار سے ہوتا ہے، جے آئی ٹی میں ایسا افسر نہیں چاہتے جو ان کے ماتحت ہو جن کا نام آرہا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کینیڈا میں پاکستانی خاتون کے قتل پر اقدامات کرتے تو شاید یہ واقعہ نہ ہوتا، ان کا بیٹا تو جاچکا اب دوسروں کے بچے بچانا چاہتی ہیں، واقعے کے بعد شور کرنے کے بجائے پہلے کچھ نہیں کیا جاتا۔

عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر مختصر ہے کیونکہ تفتیش ہوئی نہ ہی کوئی چشم دید گواہ ہے، بتایا گیا تفتیش کے لیے اسپیشل جے آئی ٹی بنائی جارہی ہے، کل تک جے آئی ٹی کے تمام ناموں سے آگاہ کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے ہدایت دی گئی کہ تفتیش سینئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے، جے آئی ٹی ارکان معاملہ فہم اور دوسرے ملک سے شواہد لانے کے ماہر ہوں، وزارت خارجہ شواہد جمع کرنے میں جے آئی ٹی کی مکمل معاونت کرے، اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے بھی معاونت ضروری ہو تو وزارت خارجہ معاونت کرے۔

عدالت کی جانب سے مزید حکم دیا گیا کہ ارشد شریف کے اہلخانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں، یقینی بنانا ہے کہ قابل اور اہل افسران قانون کے مطابق اپنا کام کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ خود آنا چاہیں تو آسکتی ہیں، ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت کل ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔

قبل ازیں اسلام آباد پولیس نے ارشد شریف قتل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا تھا جس کے مطابق سی پی او ہیڈ کوارٹرز، ڈی پی او صدر اور ایس ایچ او رمنا جے آئی ٹی کا حصہ ہوں گے۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی درخواست پر تشکیل دی گئی تھی، تشکیل کردہ جے آئی ٹی کو اپنی رپورٹ جلد از جلد مکمل کرکے آئی جی اسلام آباد کو جمع کرانی تھی۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع

قبل ازیں ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ یہ قتل غلطی نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کی بنیاد پر کیا گیا۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی 592 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی آئی بی کے دستخط کے ساتھ جمع کرائی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا، کینیا پولیس نے قتل کی تحقیقات میں کوئی معاونت نہیں کی، کیس میں کئی غیر ملکی شخصیات کا کردار اہمیت کا حامل ہے، ارشد شریف کے کینیا میں میزبان خرم اور وقار کا کردار اس معاملے میں اہم اور مزید تحقیق طلب ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقار احمد کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے، گاڑی چلانے والے خرم کے بیانات تضاد سے بھرپور ہیں، دونوں افراد مطلوبہ معلومات دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی پاکستان چھوڑنے کی وجوہات مختلف اضلاع میں مقدمات تھے جبکہ انہوں نے یو اے ای حکام کے دباؤ پر دبئی چھوڑا۔

ارشد شریف کو 20 جون 2022 کو یو اے ای ویزے کا اجرا ہوا جو کہ 18 اگست 2022 تک کے لیے تھا، جب ارشد شریف کینیا گئے تو ان کے ویزے میں 20 روز باقی تھے، انہوں نے نئے ویزے کے لیے 12 اکتوبر 2022 کو دوبارہ رجوع کیا تاہم ان کی درخواست کو رد کردیا گیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ارشد شریف کے قتل میں کینیا کے جی ایس یو کے اہلکار استعمال ہوئے جن پر مالی یا جبری دباؤ تھا۔

رپورٹ کے مطابق وقارکے کینیا پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ رابطے تھے، اس نے ارشد شریف کا آئی فون اور آئی پیڈ پولیس کے حوالے کیا، ارشد شریف کی گاڑی خرم چلا رہا تھا جس کے بیانات میں تضاد پایا گیا ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وقار کے چھوٹے بھائی خرم کا کہنا تھا کہ وہ کھانے کے بعد ارشد شریف کو ساتھ لےکر نکلا، راستے میں انہیں سڑک پر پتھر نظر آئے جس پر خرم نے ارشد شریف کو بتایا کہ یہ ڈاکو ہوں گے، سڑک پر پڑے پتھروں کو پار کرتے ہی انہیں گولیوں کی آواز سنائی دی، گولیوں کی آواز سنتے ہی وہ وہاں سے بھاگ گئے۔

رپورٹ کے مطابق خرم نے محسوس کیا ارشد شریف کو گولی لگی ہے، خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون کیا اور 18 کلو میٹر دور واقع فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا، فارم ہاؤس پہنچ کر خرم نے گاڑی کو گیٹ پر ہی چھوڑ دیا اور اندر بھاگ گیا۔

رپورٹ کے مطابق خرم کا کہنا ہے ارشد کی ہلاکت فارم ہاؤس کے گیٹ پر ہوئی، وقوعہ کی جگہ سے فارم ہاؤس تک خرم کے علم میں نہیں تھا کہ ارشد زندہ ہے یا نہیں، یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ ارشد کے سر میں گولی لگی تھی، جس زاویے پر خرم بیٹھا تھا اسے نظر آنا چاہیے تھا کہ ارشد شریف بری طرح زخمی تھے۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ارشد شریف پر داغی جانے والی گولیوں کی ٹریجکٹری کو بھی بیان کیا گیا، رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے سینے میں لگنے والی گولی کی ٹریجکٹری فائرنگ پیٹرن سے نہیں ملتی، ارشد شریف کو ایک گولی کمر کے اوپری حصے میں لگی، گولی گردن سے تقریباً 6 سے 8 انچ نیچے لگی جو سینے کی جانب سے باہر نکلی، اس زخم سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ گولی قریب سے چلائی گئی، جس زاویے سے گولی چلی اس کے نتیجے میں گاڑی کی سیٹ میں بھی سوراخ ہونا چاہیے تھا لیکن ارشد شریف کی سیٹ پر گولی کا کوئی نشان نہیں، کمر پر لگنے والی گولی واقعے کو مشتبہ بناتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کینیا پولیس اور جی ایس یو کے بیانات میں بہت زیادہ تضادات ہے، کینین حکام کے بیانات قابل بھروسہ نہیں ہیں، ارشد شریف کا قتل غلطی کی بنیاد پر نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک درجن کے قریب اہم کردار ارشد شریف سے مستقل رابطے میں تھے، یہ کردار پاکستان، دبئی، کینیا میں مقتول کے ساتھ رابطے میں تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاندان اور دوستوں کے مطابق ارشد شریف کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، یہ دھمکیاں کس نے دیں اس کا کوئی ثبوت نہ مل سکا۔

رپورٹ کے مطابق ارشد شریف پر پاکستان میں 16 مقدمات درج کیے گئے، کمیٹی کو صرف 9 مقدمات کی کاپیاں فراہم کی گئیں، کمیٹی نے اسلام آباد، بلوچستان اور سندھ کے آئی جیز کو بھی خطوط لکھے، ایف آئی آر کے مدعیان کو پیش کرنے کے لیے خطوط لکھے گئے، صرف 3 مدعیان کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے، ارشد شریف پر رواں سال 19 مئی کو ایک ہی روز میں 3 مقدمات درج ہوئے، 20 مئی کو مزید 6 مقدمات درج کیے گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے 27 اکتوبر کو ارشد شریف کے وکیل نے ایک سوال پر تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ آئی ایس پی آر ارشد شریف کا دوسرا گھر تھا، ارشد شریف بریگیڈیئر شفیق کے بہت قریب تھے، حکومت کی تبدیلی کے بعد ارشد شریف کے بریگیڈیئر شفیق سے اختلافات ہوگئے، وکیل نے بتایا کہ ارشد شریف کے خلاف کچھ مقدمات بریگیڈیئر شفیق کے کہنے پر درج ہوئے۔

رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں قانونی طریقوں کو پورا نہیں کیا گیا، فیصل واڈا نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو نہ شواہد دیے اور نہ ہی بیان جمع کرایا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ارشد کے قتل کے بارے میں فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر ان سے 15 نومبر کو رابطہ کیا گیا اور ارشد شریف کے قتل سے متعلق شواہد طلب کیے گئے، اُن کی درخواست پر ٹیم نے انہیں 7 سوال تحریری طور پر دیے، جواب کے لیے دوبارہ رابطے کی کوشش پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا زیادہ تر حصہ لوگوں سے کیےگئے انٹرویو پر مشتمل ہے، پاکستان مشن دبئی کے افسران کے بیانات بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم پر معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ تھانہ رمنا میں پولیس کی مدعیت میں درج کیا تھا۔

اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں پولیس کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 34 کے تحت درج کیا گیا ہے اور خرم احمد، وقار احمد اور طارق احمد وصی کو نامزد کیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ انسپکٹر میاں محمد شہباز اطلاع ملنے پر اسلام آباد کے پمز ہسپتال پہنچے جہاں ارشد شریف کا جسد خاکی بیرون ملک سے پاکستان پہنچایا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ارشد شریف کا میڈیکل بورڈ کے ذریعے پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بورڈ نے نمونوں کے 4 پارسلز اور ایک سکہ گولی کا نمونہ حوالے کیا، تاہم اس وقت پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی جبکہ جسد خاکی لواحقین کے حوالے کردیا گیا۔

پولیس نے کہا کہ ارشد شریف کا قتل بیرون ملک ہوا اور اس کی انکوائری اعلیٰ سطح پر ہو رہی ہے جبکہ میڈیکل بورڈ کی جانب سے دیے جانے والے نمونوں کے پارسل تھانے میں رکھے گئے۔

مقدمے میں کہا گیا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی موت آتشیں اسلحے کا فائر لگنے سے ہوئی۔

تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں خرم احمد، وقار احمد اور طارق احمد وصی کو ارشد شریف کے قتل کے ملزمان کے طور پر نامزد کیا گیا ہے اور تفتیش تعزیرات پاکستان کی دفعات 34، 302 کے تحت ہوگی۔

اسلام آباد پولیس نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ہومی سائیڈیونٹ کے انچارج انسپکٹر میاں محمد شہباز کو تفتیش کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل لارجر بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران سیکریٹری خارجہ اسد مجید، ڈی جی ایف آئی ایف محسن بٹ، سیکریٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد، پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، ڈی جی آئی بی، سیکریٹری داخلہ، صدر پی یو ایف جے سپریم کورٹ پہنچے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی سب کا حق ہے، صحافی قتل ہوگیا، سامنے آنا چاہیے کہ کس نے قتل کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ غیر تسلی بخش ہے، معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، 5 رکنی بینچ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہی تشکیل دیا ہے، صحافیوں کے ساتھ کسی بھی صورت بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی، کوئی غلط خبر دیتا ہے تو اس حوالے سے قانون سازی کریں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا، دفتر خارجہ کل تک کینیا میں تحقیقات اور مقدمہ درج ہونے سے متعلق جواب جمع کرائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحافی سچائی کی آواز ہیں، انسانی زندگی کا معاملہ ہے، ارشد شریف نامور صحافی تھے، صحافی ہی معلومات کا ذریعہ ہیں، قتل سے متعلق عوام کو بہت خدشات ہیں، ارشد شریف قتل کے تمام حقائق کو سامنے لانا ہوگا، ارشد شریف کے قتل پر کس کس پر انگلی نہیں اٹھائی گئی۔

عدالت عظمیٰ نے متعلقہ حکام کو گزشتہ روز رات تک ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے انکوائری رپورٹ بھی گزشتہ روز (6 دسمبر کو) ہی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ سیکریٹری خارجہ کینیا میں کی جانے والی تحقیقات پر رپورٹ کل تک جمع کرائیں، بعدازاں کیس کی مزید سماعت آج ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی تھی۔

ارشد شریف کا قتل

ارشد شریف اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں قتل کیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔

اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔

قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔

کینیا کی پولیس نے واقعے کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا تھا کہ ’این پی ایس اس بدقسمت واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو‘۔

کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں