’ہرجانے کا نوٹس فوری واپس لیں اور معافی مانگیں‘، عمران خان کا اومنی گروپ کو جواب

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2022
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ اومنی گروپ کا نوٹس قانونی اعتبار سے سراسر ناقص ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ اومنی گروپ کا نوٹس قانونی اعتبار سے سراسر ناقص ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے جعلی اکاؤنٹس کے معاملے میں مشہور ہونے والے اومنی گروپ کی جانب سے ہرجانے کے نوٹس کا جواب بھیج دیا۔

بیرسٹر حسان خان نیازی اور بیرسٹر میاں ولید اشرف کی وساطت سے بھجوائے گئے جواب میں عمران خان نے اومنی گروپ کی جانب سے نیب سے کی گئی پلی بارگین کی تفصیلات بھی فراہم کردیں۔

عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ نوٹس قانونی اعتبار سے سراسر ناقص ہے جو ہتک عزت آرڈیننس 2002 کے قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتا۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2018 میں سپریم کورٹ کے حکم پر بنائی گئی جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں اومنی گروپ، زرداری گروپ اور بحریہ ٹاؤن کے مابین قریبی تعلقات کا انکشاف ہوا، نیب کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس اور بدعنوانی کے چھ کیسز پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا، نیب ریفرنسز کے مطابق ان کیسز میں زرداری گروپ اور بحریہ ٹاؤن کے ساتھ اومنی گروپ کو بھی نامزد کیا گیا۔

عمران خان نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ احتساب عدالتوں کی منظوری سے 9 ارب کے پلی بارگین کی اجازت دی گئی، ریاست بنام حسین لوائی کے ریفرنس میں 2 ارب 13 کروڑ روپے کی پلی بارگین کی اجازت دی گئی، ریاست بنام منظور قادر کاکا کے ریفرنس میں 20 کروڑ کی پلی بارگین کی اجازت دی گئی، ریاست بنام خواجہ انور مجید کے ریفرنس ایک ارب 56 کروڑ روپے کے پلی بارگین کی منظوری دی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشتاق احمد اور زین ملک کے مشترکہ اکاؤنٹ کے ذریعے بحریہ ٹاؤن سے 8.3 ارب روپے کی جعلی اکاؤنٹس میں کی جانے والی ٹرانزیکشن میں سے 3 کروڑ 18 لاکھ روپے کی پلی بارگین کی منظوری دی گئی، زرداری گروپ کی جانب سے جے وی اوپال-225 میں ایک ارب 22 کروڑ روپے کے کک بیکس کے معاملے میں 17 کروڑ کی پلی بارگین کی اجازت دی گئی۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ اور زین ملک اور مشتاق احمد کے مشترکہ اکاؤنٹ سے فیک اکاؤنٹ میں کی جانے والی ٹرانزیکشن میں سے 4 ارب 96 کروڑ روپے کی پلی بارگین کی منظوری دی گئی۔

انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ اومنی گروپ کی جانب سے بھیجا گیا نوٹس بے بنیاد، غیر قانونی، جعلی اور یکسر غلط ہے، اومنی گروپ فوری طور پر اپنا نوٹس واپس لے اور چیئرمین پی ٹی آئی سے معافی مانگے۔

خیال رہے کہ اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ عبد الغنی مجید نے 22 نومبر 2022 کو چیئرمین تحریک انصاف کو ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا۔

عبدالغنی مجید کی جانب سے بھیجے جانے والے نوٹس میں عمران خان کو 14 روز میں اومنی گروپ سے غیر مشروط معافی مانگنے اور آئندہ اومنی گروپ پر بے بنیاد اور من گھڑت الزامات لگانے سے باز رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے مقررہ مدت میں نوٹس کا جواب نہ دیا تو ان کے خلاف سول اور فوجداری قوانین کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

نوٹس میں لکھا گیا کہ عمران خان نے اپنی 17 نومبر 2022 کی تقریر میں اومنی گروپ پر نیب سے 9 ارب روپے کی پلے بارگین کرنے کا الزام لگایا، جس پر اومنی گروپ نے اپنے قانونی مشیران کے ذریعے عمران خان کو نوٹس جاری کیا۔

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی یہ تاثر دے رہی ہے کہ اومنی گروپ آصف علی زرداری کی ملکیت ہے جوکہ درست نہیں ہے، اومنی گروپ ایک معروف کاروباری گروپ ہے اور مجید فیملی کی ملکیت ہے۔

نوٹس میں مؤقف اپنایا گیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اومنی گروپ اور اس کی ایسوسی ایٹ کمپنیوں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا اور بے بنیاد الزامات گروپ کی ساکھ متاثر کر رہے ہیں جس سے گروپ کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

واضح رہے کہ عمران خان نے 17 نومبر 2022 کو ایک تقریر میں اومنی گروپ پر قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ 9 ارب روپے کی پلی بارگین ڈیل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

اس سے قبل بھی عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی اومنی گروپ پر پلی بارگین کے الزامات عائد کر چکے ہیں، 11 اکتوبر کو احتساب قانون میں ترامیم کے خلاف دائر درخواست میں عمران خان کی نمائندگی کرنے والے خواجہ حارث احمد نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اومنی گروپ نے حکومت کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت صرف قومی احتساب بیورو (نیب) کو بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات سے روکنے کے لیے 4 ارب 85 کروڑ روپے ظاہر کیے۔

7 جنوری 2019 کو پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا تھا کہ اومنی گروپ کے اصل مالک آصف علی زرداری ہی ہیں۔

واضح رہے کہ اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں الزامات کا سامنا ہے، جس کا آغاز عدالت عظمیٰ نے 2018 میں بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ سے متعلق رپورٹس کا ازخود نوٹس لینے کے بعد کیا تھا اور اس معاملے کو دیکھنے کے لیے 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جے آئی ٹی نے 19 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں نیب کو بدعنوانی کے کیسز کا نوٹس لینے کی سفارش کی گئی تھی۔

7 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے نیب کو معاملے کی چھان بین کا حکم دیا اور جرم ثابت ہونے کی موجودگی کی صورت میں ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی بھی اجازت دی تھی۔

2 ستمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں قومی احتساب بیورو سے تعاون کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں